میرے جن دوستوں کو پتا چلا کہ میں ویانا میں ہوں انہوں نے مجھے عجائب گھروں اور اوپرا ہاؤسز کی ایک فہرست بھیج دی کہ یہاں ضرور جانا، آرٹ گیلریز اور محلات اِس کے علاوہ تھے۔ میرا نظریہ ہے کہ بندہ کوئی محل اُس وقت دیکھے جب اُسے خرید کر وہاں رہنا ہو ورنہ خواہ مخواہ دل جلانے کا کیا فائدہ۔ انسٹاگرام پر ایک امریکن لڑکی نے یہی بات منفرد انداز میں کی کہ ’’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں اِن امیر لڑکوں کا اچار ڈالوں یا کیا کروں، یہ مجھے اپنی مہنگی گاڑیاں اور پُرتعیش اپارٹمنٹس دکھاتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ میں خوش ہو جاؤں گی، بھئی اگر تو تم یہ میرے نام کر رہے ہو تو میں خوشی سے جھوم جھوم کر دیکھوں گی لیکن اگر یہ تمہاری ہیں تو ’کھسماں نوں کھاؤ‘ میں کیا کروں!‘‘ میونخ میں بادشاہوں کے محلات میں نے دیکھ رکھے ہیں ویانا میں بھی اسی قسم کے ہیں۔ اسی طرح آرٹ گیلریز سے مجھے فقط اتنی ہی دلچسپی ہےکہ بندہ ویانا جیسے شہر میں ایک آدھ گیلری میں جھانک کر دیکھے لے اِلّا یہ کہ اُس نے فنون لطیفہ پر تحقیقی مقالہ لکھنا ہو اور رہی بات میوزیم کی تو پچھلی مرتبہ جب میں ویانا آیا تھا تو سگمنڈ فرائڈ کا میوزیم دیکھا تھا اور اِس مرتبہ موزارٹ کا، عجائب گھروں کو اتنا وقت دینا کافی ہے۔
جیسا کہ ہم پچھلے باب میں پڑھ چکے ہیں کہ ویانا میں آپ جہاں چلے جائیں دماغ کو چڑھ جانے والی کھانوں کی خوشبوئیں پیچھا کرتی ہیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا کہ بندہ کیا کھائے اور کیا نہ کھائے، شیکسپیئر نے To be, or not to be: that is the question والاجملہ غالباً اسی سیچویشن کیلئے لکھا تھا۔ کورئین سے لے کر ٹرکش تک اور میکسیکن سے لے کر اسپینش تک، دنیا کے لذیذ کھانے اگر آپ نے کھانے ہوں تو ویانا سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ اگلے روز ہم نے یورپین ناشتہ کیا، خدا جھوٹ نہ بلوائے تو پانچ انڈوں کا آملیٹ تھا جو میں نے کھایا، احسان شاہد کا آملیٹ اِس کے علاوہ تھا، اور اِس کے ساتھ کروساں لازمی کیونکہ جیسا خستہ اور مزیدار کروساں یورپ میں ملتا ہے وہ اپنے ہاں صرف میکڈونلڈپر ملتا ہے، اور کوئی بیکری ایسا نہیں بناتی۔ اِس بھرپور ناشتے کے بعد ہم نے واک کرکے آس پاس کا علاقہ دیکھنے کا فیصلہ کیا، اللہ جانے کون کون سی تاریخی عمارتیں تھیں جن پر طائرانہ قسم کی نظر ڈال کر ہم آگے بڑھتے گئے، حالانکہ مجھے چاہیے تھا کہ ایک آدھ عمارت کا نام یاد رکھ کے پورا کالم گھسیٹ دیتا۔ ذرا دور گئے تو ایک فوڈ بازار قسم کی جگہ پر نظر پڑی، مجھے مرشدی عارف وقار کی بات یاد آگئی کہ ویانا میں اِس جگہ ضرور جانا، یہ نیش مارکیٹ کہلاتی ہے، دنیا کا کوئی ایسا فوڈ اسٹال نہیں تھا جو یہاں نہیں لگا تھا، ہمیں افسوس ہوا کہ یہاں آکر ناشتہ کیوں نہ کیا۔ اگلے روز اتوار تھا اور یہ فوڈ بازار بند تھا لیکن ہم نے قریب ہی ایک ایشین ریستوران تلاش کر لیا جس کی شاخیں پورے ویانا میں پھیلی ہیں، خدا جھوٹ نہ بلوائے وہاں ایسا اعلیٰ اورنج چکن اور فرائیڈ رائس کھایا کہ غنودگی طاری ہو گئی حالانکہ حلال گوشت تھا۔ احسان شاہد سفر میں اِس بات کا بہت خیال رکھتے ہیں کہ کہیں غلطی سے بھی ہم کسی ممنوع شے کو ہاتھ نہ لگا لیں، ایک آدھ مرتبہ تو انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ آلو کے چپس بھی ٹھیک نہیں کہ اسی تیل میں بنے ہیں جس میں یہ لوگ پورک بناتے ہیں۔ اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں، وغیرہ وغیرہ۔
ہوٹل کے ریسپشنسٹ ڈینس سے اب ہماری دوستی ہو چکی تھی، میں نے اُسے بتایا کہ ہم بارہ بجے ویانا سے براتس لاوا کیلئے نکلیں گے، کہنے لگا ویسے تو چیک آؤٹ کا وقت گیارہ بجے ہے لیکن آپ بارہ بجے تک رُک سکتے ہیں، بہت سمجھدار بچہ تھا۔ براتس لاوا، سلوویکیا کا دارالحکومت ہے اور ویانا سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ راستہ بہت خوبصورت ہے، یہ اور بات ہے کہ لاہور سے ملتان براستہ موٹر وے اِس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے، ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ بات مذاق لگی ہو لیکن سچ یہی ہے کہ جیسا لہلہاتا پنجاب موٹروے کے اطراف میں ہے ویسا نظارہ ہند سندھ میں نہیں۔ براتس لاوا میں احسان شاہد نے جو کمرہ نما اپارٹمنٹ بُک کروایا اُس کا نمبر 804 تھا، ہم نے اس کی چابی ضرورت سے زیادہ سنبھال کر رکھ لی کہ کہیں اندر قید ہی نہ ہو جائیں۔
براتس لاوا چھوٹا سا خاموش شہر ہے، آبادی بھی زیادہ نہیں، شہر پر سوویت یونین کی چھاپ اب بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے، ویسے تو ویانا کے بعد یورپ کا کوئی دوسرا شہر نظر میں جچ ہی نہیں سکتا اور براتس لاوا بیچارہ تو اُس کے مقابلے میں بالکل ہی مسکین ہے۔ پرانی ٹرینیں اور ٹرام ہیں اور ٹکٹوں کی خودکار مشینیں بھی قبل از مسیح کے زمانے کی ہیں، اب حکومت نے چند نئی ٹرام خرید کر چلائی ہیں۔ شہر کا اولڈ ٹاؤن دیکھنے کی جگہ ہے، یہاں آپ صرف پیدل چل سکتے ہیں، ویک اینڈ پر یہاں رونق ہوتی ہے، سڑک کے کنارے کافی شاپس، ریستوران اور بارز ہیں، سوینئیر کی دکانیں بھی ہیں، ہمیں اِس پورے علاقے میںچہل قدمی کا بہت مزا آیا۔ اولڈ ٹاؤن میں کہیں کہیں ایسا راستہ بنا ہوا بھی نظر آیا کہ جیسے آپ کسی پُل کے نیچے سے گزر کر نئی جگہ میں داخل ہو جائیں، اُس جگہ یکدم ساری رونق ختم ہو جاتی ہے اور آپ خود کو کسی خاموش رہائشی جگہ پر موجود پاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے اندرون لاہور یاد آ گیا، وہاں بھی تقسیم سے پہلے کی ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں لوگ مشترکہ مکانات بنا کر رہتے تھے اور رات ڈھلتے ہی مرکزی دروازے کو تالہ لگا کر بند کر دیا جاتا تھا، یوں وہ چھوٹی سی گیٹڈ کمیونٹی بن جاتی تھی۔
اگلے روز ہم ڈینیوب پر گئے، دریا کے کنارے ایک کیفے تھا، ہم واک کرکے وہاں تک پہنچے، فون پر قدم گنے تو صبح ہی صبح آٹھ ہزار ہو چکے تھے، دل نے ایک نعرہ مستانہ بلند کیا، ویسے تو ہم ناشتہ کرکے نکلے تھے، مگر اِس سرگرمی کے بعد ہم نے سوچا کہ یہاں کے خاص آلو کے چپس کھائے جائیں اور کچھ اہم موضوعات پر گفتگو کی جائے جیسے کہ روحانیت کیا ہے، میاں چنوں کی برفی اتنی لذیذ کیوں ہوتی ہے اور یورپ میں لڑکیاں شٹل کاک برقع کیوں نہیں پہنتیں....دریا کے کنارے تیز ہوا چل رہی تھی، بچے بے فکری کے عالم میں کھیل رہے تھے، کچھ لڑکیاں اکیلی اور کچھ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھی گپیں لگا رہی تھیں، مرد و زن دنیا و مافیہا سے بے خبر چہل قدمی کر رہے تھے۔ دریا کا کنارہ تھا، خاموشی تھی اور سکون تھا۔ اور یہ مسکین سا شہر ہمارا منہ چڑا رہا تھا اور سوال کر رہا تھا کہ آخر تم لوگ اِس طرح زندگی کیوں نہیں گزارتے! (جاری ہے)۔