• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں لاہور گیا تو میرے ساتھ میرا بھانجا انیس برلاس بھی تھا، لندن کی ایک یونیورسٹی میں پڑھنے والے اس نوجوان کا تعلق کراچی سے ہے، اس کیلئے لاہور بالکل نیا تھا، میں نے سوچا اسے لاہور کی سیر کیسے کراؤں کیونکہ اندرون شہر جانا تھا، سو اپنی گاڑی کی بجائے پنجاب ٹورزم کی بس کا انتخاب کیا۔ قذافی اسٹیڈیم سے چلنے والی بس گلبرگ سے ہوتی ہوئی نہر کنارے آ گئی اور پھر نہر سے اندرون شہر جانےکیلئے مال روڈ کا راستہ اختیار کیا گیا، میں نے اسے بتایا یہ نہر، لاہور شہر کے بیچ میں سے گزرتی ہے، مال روڈ کی ابتدا سے اسے بتانا شروع کیا کہ ہمارے دائیں طرف ایچی سن کالج ہے اور بائیں طرف بابوؤں کے لمبے چوڑے گھر ہیں پھر اسے پولیسی اسکول کا بتایا جہاں بیوروکریٹس تربیت پاتے ہیں، کبھی اسے سات کلب اور آٹھ کلب کا بتایا، کبھی باغ جناح، کبھی الحمرا، کبھی دو شاندار ہوٹلوں کے نام، کبھی چڑیا گھر اور پھر سیاسی محفلوں میں ڈسکس ہونے والا چڑیا گھر، پنجاب اسمبلی، ریگل چوک، ہائیکورٹ کی عمارت، جی پی او، پاک ٹی ہاؤس، انار کلی، ٹولنٹن مارکیٹ، پنجاب یونیورسٹی، عجائب گھر، این سی اے، ٹاؤن ہال، ناصر باغ، سول سیکرٹریٹ، گورنمنٹ کالج لاہور (جہاں میں خود پڑھتا رہا)۔ ان تمام عمارتوں کے تاریخی حوالے بھی اسے بتاتا رہا پھر اس کے بعد سینٹرل ماڈل اسکول، کربلا گامے شاہ، داتا علی ہجویری کا مزار، لیڈی ویلینگڈن ہسپتال(جہاں 92ء کا ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان کی پیدائش ہوئی تھی)، مینار پاکستان، اقبال پارک سے ہوتی ہوئی بس شاہی مسجد کے قریب آ گئی، سامنے شاہی محلہ ہے پھر اس کے بعد شاہی قلعے کی سیر کی گئی، دیوان خاص، دیوان عام اور شیش محل سمیت قلعے کی کئی یادگاریں دیکھنے کے بعد مہا راجا رنجیت سنگھ کی سمادھی، گوردوارہ پھر شاہی مسجد، علامہ اقبال کی قبر پر حاضری، کچھ سامان اکل و شرب اور بس اس کے بعد واپسی۔ واپسی پر ایک سرکاری افسر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا، کہنے لگا ’’ کیسا لگا؟‘‘میں نے اس سے کہا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہم نے یہ جتنی یادگار عمارتیں دیکھی ہیں، سب پاکستان بننے سے پہلے بنی تھیں، آج بھی جب کوئی غیر ملکی سربراہ آتا ہے تو ہم اسے شاہی قلعہ، شاہی مسجد یا پھر شالامار باغ دکھانے لے جاتے ہیں، یہ تینوں شاہکار مغلوں نے بنائے، ہماری حکومتوں نے 78 برسوں میں کیا بنایا؟ جو ہم کسی غیر ملکی مہمان کو دکھانے لے جائیں؟ میرے اس سوال کا جواب اسکے پاس بے بسی کے سوا کچھ نہ تھا پھر میں نے اس سے کہا یہ سب نظام کا قصور ہے۔

صاحبو! قیام پاکستان کے فوراً بعد سازشیں شروع ہو گئی تھیں، انہی سازشوں میں پاکستان بنانے والا عظیم قائد بھی چلا گیا، بدقسمتی سے پاکستان کو چار کے ٹولے نے جکڑ لیا، یہ ٹولہ بابوؤں، ججوں، طاقتوروں اور جیتنے والے تابعدار گھوڑوں پر مشتمل تھا۔ 78 برسوں میں اسی ٹولے نے پاکستان کو لوٹا، پاکستان میں کرپشن کی، پاکستان کی بدحالی کا ذمہ دار بھی یہی ٹولہ ہے۔ پاکستان میں تعلیمی خرابی کا ذمہ دار بھی یہی ہے، صحت کے نظام کی بے بسی کا ذمہ دار بھی یہی ہے، پاکستان کی معاشی بد حالی کا ذمہ داراورپاکستان کے ترقی نہ کر سکنے کی وجہ بھی یہ ہے، یہ کبھی انصاف کا قتل کرتا ہے، کبھی میرٹ کی دھجیاں بکھیرتا ہے، کبھی غیر آئینی حربوں کو لباس پہناتا ہے، کبھی غیر قانونی کاموں کو نظریہ ضرورت کے تحت پالتا ہے، یہی وہ گروہ ہے جو ملک کی دولت لوٹ کر بیرون ملک لے گیا اور پرائے دیس میں اپنی جائیدادیں بنائیں مگر اب یہ نظام جواب دے گیا ہے، یہ نظام چل نہیں رہا ، اسے گھسیٹا جا رہا ہے۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور نا انصافی کے باعث اس نظام سے متنفر ہو چکی ہے، اب پاکستانی لوگ ایک نئے نظام کے خواہاں ہیں، ایک نئے نظام کے متلاشی ہیں، ایسا نظام جو ان کی تقدیر بدل دے، جو ترقی، خوشحالی اور انصاف کا نظام ہو۔ بقول نوشی گیلانی

تم نہ روک پاؤ گے حق کے پاسبانوں کو

منزلیں ہماری ہیں، راستے ہمارے ہیں

تازہ ترین