براتس لاوا ٹرین اسٹیشن پر ٹکٹ لینے پہنچے تو کاؤنٹر پر موجود خاتون اپنی زندگی سے بیزار نظر آئی، سوائے ٹکٹ کی قیمت کے ہم نے اُس سے جو سوال کیا اُس کا جواب تھا مجھے نہیں معلوم۔ بدقت تمام ہم اپنا سامان اٹھا کر پلیٹ فارم پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ لِفٹ بھی تھی، اپنے سیانے پن پر غصہ آیا کہ اتنی بنیادی بات کیوں نہ سوچی، لیکن پھر اِلزام اُس عورت کی بد مزاجی پر دھر کے مطمئن ہو گئے۔ براتس لاوا سے برنو کا سفر سوا گھنٹے کا تھا مگر ٹرین بیس منٹ تاخیر سے پہنچی۔ برنو، چیک ریپبلک کا چھوٹا سا شہر ہے، مگر یہاں پہنچتے ہی احساس ہوا کہ یہ براتس لاوا سے بدرجہا بہتر ہے۔ بچپن میں ہم ایک ملک کا نام سنتے تھے، چیکوسلواکیہ، یہ ملک 1992ءمیں تقسیم ہو گیا، ایک حصہ چیک ریپبلک کہلایا اور دوسرا سلوویکیا، مگر اِن دونوں ممالک کی ترقی میں واضح فرق ہے، سلوویکیا کا دارالحکومت بھی برنو جیسے شہر کے آگے ماند پڑتا ہے۔ ہمارا ہوٹل شہر کے بالکل مرکزی علاقے میں تھا، چیک اِن ہوتے وقت ہم نے وہی تیر بہدف نسخہ استعمال کیا جس ذکرپہلے کیا جا چکا ہے، نتیجے میں ہوٹل کی منیجر نے مفت ناشتہ ہمارے قیام میں شامل کر دیا جسکی دو دن کی قیمت چونسٹھ یورو بنتی تھی۔ کر رہا تھا ’ناشتے‘ کا حساب، آج تم یاد بے حساب آئے!
برنو کا مرکزی علاقہ مخصوص یورپین شہر جیسا ہے، وہی بلند و بالا گرجا گھر، پرانی اور پُرشکوہ عمارتیں، پتھریلی گلیاں، اُن میں دوڑتی بھاگتی ٹرام، کافی کی دکانیں، شاپنگ سینٹرز، شراب خانے اور شانتی۔ سامان رکھنے کے بعد ہم نے پورے علاقے کا دورہ کیا، کھانا کھایا، کافی پی اور فیصلہ کیا کہ کل ہم یہاں کے چیدہ چیدہ مقامات دیکھیں گے۔ شام کو ہوٹل پہنچنے کے بعد احسان شاہد نے انٹرنیٹ پر شہر کے بارے میں معلومات تلاش کیں تو پتہ چلا کہ برنو میں دس چیزیں دیکھنے کی ہیں جن میں سے سات ہم پہلے ہی مٹرگشت کرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں، باقی تین جگہیں بھی بالکل ہوٹل کے سامنے تھیں جن میں سے ایک فروٹ منڈی تھی جس کے بارے میں ایسے لکھا تھا گویا یہ دنیا سے کوئی نرالی منڈی ہو۔ اِس کے باوجود ہم نے ہمت ہاری اور ٹرام پر پورے شہر کا چکر لگایا جسکے بعد اُس بات کو مزید تقویت ملی کہ جو کچھ ہے اسی مرکزی علاقے میں ہے باقی فقط ڈی ایچ اے ہے۔ شام کو شہر میں ایک میلہ سا لگا تھا، کچھ موسیقی کا اہتمام تھا اور کھانے پینے کے اسٹال لگے تھے، ہم بھی میلے میں گھُس گئے، پہلے تو ایک بے سُری عورت نے گانا شروع کیا، لیکن جلد ہی اُس کی چھٹی ہو گئی اور پھر وہاں کے مقامی سازندوں نے اسٹیج سنبھال لیا اور ماحول کو خوب گرمایا، لیکن احسان شاہد کا خیال تھا کہ اگر اِس میلے میں میاں چنوں سے کوئی ڈھول والا بلا لیا جاتا تو زیادہ رونق لگتی۔ یہاں تک لکھ کر مجھے احساس ہوا ہے کہ ابھی تک سفرنامے میں کسی حسین مہ جبیں کا ذکر نہیں کیا، یوں لگ رہا ہے جیسے یورپ نہیں آئے بلکہ حج کرنے آئے ہیں۔ بھلے وقتوں میں سفرنامہ نگار حسینوں کا ذکر اِس انداز میں کرتے تھے کہ اُس نے ہمیں دیکھا اور مر مٹی کیونکہ یہ سفرنامے کی بنیادی ضرورت ہوا کرتی تھی، لکھاری اِس قسم کی عورتوں کی تلاش میں رہتے تھے اور اگر انہیں کوئی نہ بھی ملتی تو گوریوں کے حسن کے قصے لکھ لکھ کر ہی قاری کی رال ٹپکا دیتے تھے۔ لیکن برا ہو انٹرنیٹ کا جس نے یہ سارا طلسم ہی توڑ دیا، اب تو ٹکٹ بنوانے سے لے کر ہوٹل پہنچنے تک کوئی ایڈونچر نہیں ہوتا۔ میں جب بھی یورپ آتا ہوں تو ہر پاکستانی کی طرح اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں کہ آخر انہوں نے ایسا کیا کام کیا ہے جو ہمارے جیسے ممالک میں نہیں ہو سکتا۔ کیوں اِن کے شہروں میں ٹرام کی ٹکٹ چیک نہیں ہوتی مگر اِس کے باوجود لوگ ٹکٹ خرید کر سفر کرتے ہیں، کیوں اِن کا تین سال کا بچہ بھی جب سائیکل پر باہر نکلتا ہے تو اُس نے ہیلمٹ پہنا ہوتا ہے، کیوں اِن کے کیفے کے باہر لگی کرسیاں ایک اِنچ بھی اُس جگہ سے باہر نہیں ہوتیں جو اُن کے لیے مخصوص ہوتی ہے...کیوں؟ جبکہ یہاں ہم نے ہر شخص کے اوپر ایک تھانیدار بٹھایا ہوا ہے اور اُس تھانیدار کے اوپر پوری انتظامیہ نگرانی کیلئے بیٹھی ہے مگر اِسکے باوجود ہماری دکانوں کے آگے ناجائز تجاوزات ہیں، ہیلمٹ پہننا تو دور کی بات دس دس سال کے بچے اندھا دھند موٹرسائیکل دوڑاتے پھرتے ہیں اور کوئی پوچھتا نہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ قانون پر صرف اُس وقت اور اُس حد تک عمل ہوتا ہے جب کوئی سر پر ڈنڈا لے کر کھڑا رہے اور خلاف ورزی کی صورت میں وہ ڈنڈا سر پر رسید کرے۔ یوں تو اِس کی بہت سی وجوہات ہیں، مثلاً جب یہ ممالک سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول میں تھے اُس وقت سے ہی ڈسپلن کا سبق انہیں گھوٹ کر پلا دیا گیا تھا، یہ وہی تربیت تھی جو بعد میں اِن کے کام آئی، ہمارا المیہ یہ ہوا کہ نہ تو ہمیں خالص آمریت ملی اور نہ اصلی جمہوریت۔ ہمارے ہاں بچے کو مذہب کی تقدیس کا سبق تو ضرور پڑھایا جاتا ہے (اسی لیے وہ اُس کا خیال بھی رکھتا ہے) مگر آئین کو مقدس کتاب کوئی نہیں سمجھتا، یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر یورپ میں قانون کی حکمرانی کی پوری عمارت کھڑی ہے۔
بات ثقیل ہو گئی، چیک ریپبلک واپس آتے ہیں اور حسنِ یار اور زُلف کی رخسار کی باتیں کرتے ہیں۔ اگلی منزل پراگ ہے، لیکن نہ جانے کیوں میرا دل لاہور میں اٹکا ہے اور کیفیت اُس عورت جیسی ہے جس کو اُس کا شوہر ہنی مون پر سوئٹزرلینڈ لے گیا مگر دو دن بعد ہی وہ بور ہو گئی، شوہر نے وجہ پوچھی تو روہانسی ہو کر بولی ’’وہاں گاؤں میں سب اکٹھے بیٹھے تربوز کھا رہے ہیں، گنّے ’چوپ‘ رہے ہیں، موجیں کر رہے ہیں اور میں یہاں آپ کے ساتھ بیٹھی ہوں۔‘‘
یہاں صبح کے نو بج رہے ہیں، موسم خوشگوار ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی، موبائل فون پر نیرہ نور کا گایا ہوا اختر شیرانی کا گیت چل رہا ہے ’’اے عشق ہمیں برباد نہ کر...‘‘ مجھے لگتا ہے کہ یہ لاہور سے عشق ہی ہے جو ہمیں چین نہیں لینے دیتا اور یہ عشق دراصل لاہور سے نہیں بلکہ اپنی جنم بھومی سے ہوتا ہے اور اپنے شہر سے عشق کبھی ماند نہیں پڑتا چاہے اُس شہر میں دھول ہی کیوں نہ اڑتی ہو۔