• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ پچیس برسوں میں اگرچہ یومِ پاکستان ڈھول ڈھمکے اور ظاہری سجاوٹ تک پورے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا رہا مگر باطنی طور پر اداسی اور بے یقینی کا راج تھا۔ ادبی محفلوں، خصوصاً جشنِ آزادی کے حوالے سے منعقدہ مشاعروں میں وہ والہانہ پن اور خلوصِ دل جسکی روایت ہماری شعری تہذیب کا حصہ رہی ہے، آہستہ آہستہ مدھم پڑ گیا تھا۔ وطن کے لئے لکھے کلام میں نہ وہ دعائیں سنائی دیتی تھیں جو دل کی گہرائیوں سے کرنوں کی طرح ابھرتی ہیں اور نہ وہ محبت کی شدت میں بھیگے لفظ جو پہلے روح کی زمین میں اگتے ہیں اور پھر احساس میں رَچ کر نگاہوں کی لَو بنتے ہوئے صفحات پر خیمہ زن ہوتے ہیں۔نظامت کرتے ہوئے بہت سی محافل میں تخلیق کاروں کا رسمی بلکہ اْکتایا ہوا انداز دیکھ کر احساس ہوتا تھا جیسے ان پر کسی غیر محسوس بوجھ یا فرض کی ادائیگی کی کیفیت غالب تھی۔ان کی منشا اور خوشی شامل نہیں تھی۔ یوں کہیے شکووں ، شکایتوں کی گنجانی نے محبت، عقیدت،لگن اور تحسین کے جذبے کو کہیں دور پس منظر میں دھکیل رکھا تھا، جس کے باعث یہ تقریبات اکثر بے رنگ اور غیر متاثر کن محسوس ہوتیں۔تاہم اس برس منظر نامہ یکسر مختلف اور حیرت انگیز ہے۔ فضا میں ایک تازہ ولولہ اور غیر معمولی جوش محسوس ہوتا ہے۔ دل کی گہرائیوں سے پھوٹنے والے جذبات قومی ترانوں کی صورت میں شدت کے ساتھ فضا میں گونج رہے ہیں۔ شاید قیامِ پاکستان سے اب تک، کسی ایک مہینے میں اتنے ترانے نہ لکھے گئے ہوں جتنے اس اگست میں لکھے، پڑھے اور گائے گئے۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ نئے زمانے کی کڑی آزمائشوں نے آزادی کی اصل معنویت اور اس کی بقا کے احساس کو ہمارے اجتماعی شعور میں دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ ہم نے جان لیا ہے کہ موت سے زیادہ کربناک چیز دشمن کے سامنے کمزوری کا احساس ،ہار اور بے وقاری ہے ، جیت کے ساتھ جڑے احساسِ تفاخر نے فنکار کے شعور میں ایک نیا تخلیقی جوش بھر دیا ہے۔یہ تجربہ سب کا ذاتی اور سچا ہے۔اس تجربے نے، جو ہر فرد کے باطن پر نقش ہے، شعرا کے کلام کو ایک نئی جہت اور معنویت عطا کی ہے۔ امسال کے مشاعرے اور سیمینارز ایک ہمہ گیر جشن کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ میں نے متعدد تقریبات میں شرکت کی اور یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ عوام اور اہلِ قلم کے رویّے غیر معمولی طور پر مثبت اور پْرجوش ہیں۔ طویل عرصے سے مایوسی اور بددلی کے اسیروں کے دلوں میں خوابیدہ نغمے جاگ اٹھے ہیں۔ اس برس کی سرشاری نے ہمیں گویا تخلیقی اور وجدانی بہار کا تحفہ دیا ہے۔ایسی بہار جو آزمائش کی بھٹی سے گزر کر حاصل ہوئی ہو، جس نے ہمیں اپنی اصل قدر کا احساس اور اپنی اجتماعی طاقت کا شعور دوبارہ بخشا ہو۔

ترانہ لکھا نہیں جاتا وہ دل کی زمین پر جنم لیتا ہے، روح میں نمو پاتا ہے، اور جب وجود میں اپنی پوری دھڑکن کے ساتھ بجتا ہے تب صفحے پر اترتا ہے۔ اظہر فرید کی طرف سے ٹی وی مشاعرے کی ریکارڈنگ کا پیغام موصول ہوا تو ذہن میں ایک نیا کلام روشنی کی مانند ابھر آیا۔ میں نے گمان کیا کہ یہ جذبہ شاید صرف میرے قلم تک محدود ہو، مگر مشاعرے میں شریک ہر شاعر کے لبوں پر وہی ولولہ، وہی شدت اور وہی صداقت کی آنچ موجود تھی۔ گویا اس برس یومِ پاکستان کے مشاعرے نے اپنی کھوئی ہوئی روح دوبارہ پا لی ہے۔احساس ہوا کہ اس وطن کے نام اور وقار کیساتھ ہماری روح اور سانس جڑی ہوئی ہے۔ اسکے بغیر ہم کچھ نہیں۔انہی احساسات میں رَچا کلام پیش خدمت ہے۔

دشمن نے اِس بار ہمیں للکارا پھر

ہم نے اسکو گھر میں جا کر مارا پھر

وہ بزدل جو رات کو حملے کرتا تھا

ہم نے اس پر دن میں قہر اتارا پھر

دشمن کو تھا ناز بہت ہتھیاروں پر

ہم نے اس کو دیا جواب کرارا پھر

خیر ہو اپنے شاہینوں کی جرات کی

دنیا بھر میں گونجا نام ہمارا پھر

جو نفرت میں اندھا ہو کر نکلا تھا

ہمت کر کے اْس کا نشہ اتارا پھر

وہ قومیں جو ہم سے بات نہ کرتی تھیں

آکر سب نے تن من ہم پر وارا پھر

اِس سے بڑھ کر تمکو سبق سکھلائیں گے

میلی آنکھ سے دیکھا اگر دوبارہ پھر

اللّٰہ کی نصرت جب شامل حال ہوئی

شیرِ خدا کا ہم کو ملا سہارا پھر

تازہ ترین