• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجرے میں قید طوطے سے ایک اور طوطا ملنے آیا، دونوں کی بات چیت ہوئی، آزاد طوطے نے قیدی طوطے کی باتیں سن کر کہا ’’میں کل اپنے اور آپ کے گرو طوطے سے ملنے جا رہا ہوں، اس کیلئے کیا پیغام ہے‘‘؟ قیدی نے کہا ’’میں پنجرے میں قید ہوں، آزادی کی کوئی سبیل نہیں نکل رہی، گرو جی سے یہ پوچھنا کہ کیا کروں؟‘‘ آزاد طوطا یہ پیغام لے کر اڑا اور سیدھا گرو طوطے کے پاس پہنچا، گرو سے کہا کہ فلاں فلاں طوطے کا یہ پیغام ہے، وہ مشکل میں ہے، پنجرے میں بند ہے اور اس نے یہ پیغام دیا ہے۔ پیغام سنتے ہی گرو طوطے نے کہا ’’غلامی سے بہتر ہے مر جاؤ‘‘۔ اس پیغام کیساتھ ہی ایک ترکیب بھی سمجھا دی۔ پیغام رساں طوطا گرو جی سے اہم پیغام لیکر اڑا اور پنجرے میں بند طوطے کے پاس پہنچا، اسے جونہی گرو کا پیغام دیا تو وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا، ایسے لگا جیسے وہ مر گیا ہو۔ پیغام رساں طوطا چلا گیا اسکے بعد جونہی مالک نے پنجرے کو دیکھا تو اسے مرا ہوا طوطا نظر آیا، اس نے ایک ملازم سے کہا کہ پنجرہ کھولو اور اس طوطے کو پھینک آئو، جونہی پنجرہ کھلا تو طوطا پھُر کر کے اڑ گیا اور اڑ کر سیدھا اپنے گرو کے پاس پہنچا۔ گرو طوطے نے نئے آزاد ہونیوالے طوطے کو جونہی دیکھا تو کہنے لگا ’’زبردست! مجھے تم سے یہی توقع تھی کیونکہ تم نالائق نہیں ہو، مجھے پتہ تھا جونہی تمہیں میرا پیغام ملے گا، تم پنجرے کے مالک کے سامنے ایسا ہی تاثر بناؤ گے کہ جیسے تم مر گئے ہو اور جونہی پنجرہ کھلے گا تو تم اڑ کر میرے پاس آ جاؤ گے، آزادی مبارک۔ پرندے بھی آزادی پسند ہیں، انہیں بھی قید سے پیار نہیں ہے، وہ بھی غلام نہیں رہنا چاہتے تو انسانوں پر غلامی کس قدر بھاری ہو گی، اسکا اندازہ غلام انسانوں اور غلام ملکوں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ ایسے تو اقبال نے کہہ دیا تھا کہ

دل چیر گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی

برصغیر کے لوگوں کو انگریزوں نے غلام بنایا مگر اس غلامی کی زیادہ قیمت مسلمانوں کو اسلئے ادا کرنا پڑی کہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ برصغیر کی آزادی کیلئے مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں، سکھوں اور دیگر طبقات نے بھی زبردست کوششیں کیں، انہی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ انگریز برصغیر سے نکلنے پر مجبور ہوا اور اگست 1947ء کو برصغیر کے لوگوں کو آزادی دے دی گئی۔ کچھ لوگ اسے بظاہر آزادی کہتے ہیں، دراصل وہ لوگ بھی غلط نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے سامنے انسانوں سے غلاموں جیسا سلوک دیکھتے ہیں۔ میں یہاں پاکستان اور بھارت سمیت بنگلہ دیش کا تذکرہ کروں گا۔ پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات بہت جلدی ہو گئی، کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم کو قتل کیا گیا، ہم اس بحث میں الجھے بغیر اس نظام پر بات کرتے ہیں، جس نے پاکستانی قوم کو جکڑ رکھا ہے۔ یہ نظام ہی تو ہے جو قائد اعظم کے بعد لیاقت علی خان کو منظر سے ہٹاتا ہے، سیاسی حکومتوں کو چلنے نہیں دیتا، یہی نظام مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی ریڈیو پر پوری تقریر نشر نہیں ہونے دیتا، یہی نظام فاطمہ جناح جیسی عظیم خاتون پر غداری کے فتوے صادر فرماتا ہے، یہی نظام انہیں الیکشن بھی ہرواتا ہے اور فاطمہ جناح کی موت کا ذمہ دار بھی یہی نظام ہے۔ یہ نظام کبھی حسین شہید سہروردی کو غدار ڈکلیئر کرتا ہے تو کبھی سیاستدانوں کو ایبڈو کر دیتا ہے۔ اسی نظام کے ہاتھوں آدھا ملک ہم سے الگ ہو گیا، میں اس کے کرداروں پر بات نہیں کرتا مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہماری کوتاہیاں بھی شامل تھیں۔ میرے مرحوم دوست نصیر ترابی کی وہ غزل بہت مشہور ہوئی کہ جس کا ایک شعر یہ ہے

عداوتیں تھیں، تغافل تھا رنجشیں تھیں مگر

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی

1970ء کے بعد سے آج تک کے جو حالات ہیں، ان کو بیان کروں تو کتابیں لکھنا پڑیں گی مگر میں نظام کی خرابی کا تذکرہ صرف ایک چھوٹے سے واقعے سےکر دیتا ہوں کہ حالیہ 13اگست کو ایک ریڑھی بان لڑکا صرف اس لئے گرفتار کر لیا جاتا ہے کہ اُس نے ایک خاص لیڈر کی تصاویر فروخت کیوں کیں؟

بھارت میں آزادی کی کیا صورتحال ہے، وہاں اب بھی کئی ریاستیں آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں، وہاں اب بھی ظلم و جبر کا نظام ہے، ہندوؤں کے علاوہ ہندوستان میں سب کا جینا اجیرن بنا دیا گیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بھارت میں کبھی چرچ جلائے جاتے ہیں، کبھی گوردواروں کی توہین کی جاتی ہے، کبھی نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے، اس سے تو ساری دنیا واقف ہے کہ بھارت میں شودروں کو آج بھی انسان نہیں سمجھا جاتا، شودروں کا گھوڑے پر بیٹھنا تو محال، گاڑی خریدنا بھی جرم بن جاتا ہے۔ منی پور، میزورام، ناگالینڈ اور آسام سمیت کئی ریاستوں میں لوگ آزادی کا پرچم تھامے بغاوت پر تلے ہوئے ہیں۔

رہا بنگلہ دیش تو وہاں کے نوجوانوں نے حالیہ انقلابی تحریک کے ذریعے بنگلہ دیش کی سمت تبدیل کر دی ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا ہمارے ہاں قائداعظم کے خیالات کی روشنی میں سب کچھ ہو رہا ہے؟

یاد رکھیئے! پاکستان کو نہ تو کسی ان پڑھ آدمی نے لوٹا ہے اور نہ ہی کسی غریب نے بلکہ خاص طبقات کی عیاشی کے باعث غریبوں کی جھولیاں قرضوں سے بھر گئی ہیں مگر غریب لوگ ان قرضوں کے باوجود پاکستان سے پیار کرتے ہیں، پاکستان کی محبت میں گیت گاتے ہیں۔ اسی لئے تو نوجوان شاعر وصی شاہ کہتا ہے کہ

یہ کامیابیاں، عزت ، یہ نام تم سے ہے

مِرے وطن ! مِرا سارا مقام تم سے ہے

تازہ ترین