• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کسی تاجر سے تجارت سے متعلق پوچھیں، تو وہ یہی کہے گا کہ اُس کا سب کچھ یہی مال یا لین دین ہے اور اُس کی زندگی اسی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔وہ تجارت کے دَوران کسی سے چند منٹ کی بات چیت بھی گوارا نہیں کرتا اور یوں لگتا ہے، جیسے کسی بڑے وکیل کی طرح بات کرنے کے بھی پیسے وصول کر رہا ہو۔

اب اگر کوئی تاجر دنیا کا سب سے طاقت وَر انسان بن جائے اور اس کے پاس سیاست سے معیشت تک، فوجی قوّت اور ٹیکنالوجی سے ماحول بدلنے تک کے اختیارات آجائیں، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے ساتھ اُس کا کیا طرزِ عمل ہوگا۔ اس کا صاف اور واضح جواب آپ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کے رواں دورِ اقتدار میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ 

دنیا نے بہت کم تاجروں کو اختیار و حُکم رانی کی اِس کرسی پر دیکھا ہوگا، جس پر آج ڈونلڈ ٹرمپ بیٹھے ہیں۔2025 ء کے پہلے7 ماہ میں دنیا کو اِس کا مسلسل منفی و مثبت تجربہ بھی ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے، جیسے دنیا کی ہر چیز ہچکولے کھا رہی ہو۔چین، روس، برطانیہ اور یورپ آج تک یہ سمجھتے رہے کہ وہ ایٹمی طاقت اور ویٹو اختیار کی وجہ سے دنیا چلا رہے ہیں، مگر اب سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا واقعی وہ اُتنے ہی بااختیار ہیں، جتنا کہ خود کو سمجھتے ہیں۔

اُنہیں دنیا میں اپنا کردار نبھانے کے لیے ٹرمپ کی صبح، شام بدلتی پالیسیز میں خود کو کس طرح ایڈجسٹ کرنا ہے، اب یہی ان کی اوّلین ترجیح ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک’’ملٹی پولر ورلڈ‘‘ کا ذکر عام تھا، کیا اب بھی ایسا ہی ہے، اس کا تجزیہ بے حد ضروری ہے۔

نیز، یہ نظریہ بھی عام تھا کہ جس کے پاس ایٹمی طاقت ہے، وہ دنیا کو ڈرا دھمکا کر اپنی بات منوا سکتا ہے، لیکن صدر ٹرمپ نے ایٹمی طاقت کا یہ نظریہ تجارت سے بدل دیا۔ اب ہر بڑی، چھوٹی عالمی طاقت کو یہی فکر پڑی ہے کہ اُس کے مال کی کیا قیمت ہوگی اور وہ کیسے اُسے مارکیٹ میں بیچنے میں کام یاب ہوگا۔ جو ممالک یہ تھیوری نہیں سمجھ پا رہے، وہ صرف کاغذی شیر ہیں یا پھر کنگال۔

امریکا کے دوست اور دشمن، اتحادی اور مخالف، خواہ کچھ بھی بیانات دیتے رہیں، لیکن اُنہیں یہی فکر لاحق ہے کہ وہ اپنے برآمدی مال پر امریکی ٹیرف سے کیسے بچیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا، تو پھر مُلکی معیشت ایسے جھٹکے کیسے برداشت کرے گی، وہ اِس کے لیے حکمتِ عملی بنانے میں مصروف ہیں۔ وہ مُلک، جنہوں نے اِس صدی کے اوائل میں ایک نئی خوش حالی دیکھی اور جن کا معیارِ زندگی بدلا، اُنہیں نئی صُورتِ حال میں سب سے زیادہ پریشانی لاحق ہے۔

وہ جس سسٹم کے عادی تھے، وہ لپٹتا جا رہا ہے۔ آخر چین، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک، روس، بھارت اور خاص طور پر یورپ ٹرمپ کی روز بدلتی ٹیرف پالیسی سے کیوں سخت پریشان ہیں۔ کیا اُن کے پاس ٹیکنالوجی یا ہنر مند نہیں، فیکٹریز مال نہیں بناتیں، زمین نے معدنیات اگلنا بند کردی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے، تو پھر ٹیرف نے ہلچل کیوں مچا رکھی ہے۔

دراصل، پہلی مشکل یہ ہے کہ ٹرمپ اور ٹیرف کہیں ٹھہرنے کو تیار نہیں۔ کبھی پچاس فی صد ٹیرف کا اعلان اور پھر دوسرے ہی دن اُسے25 فی صد کردیا جاتا ہے۔ چین پر بھاری ٹیرف عائد کیا گیا اور پھر نوّے روز کے لیے اُسے مؤخر کرکے بات چیت کا آغاز ہوگیا۔ بھارت پر پچاس فی صد ٹیرف عاید کیا گیا ہے اور اِس ضمن میں اُس پر یوکرین جنگ کو بڑھاوا دینے کا الزام بھی عاید کیا گیا ہے۔

بھارت اور امریکا کے مابین کچھ دنوں پہلے تک جس قدر قربت تھی، اُس پس منظر میں دنیا امریکی اقدام پر حیران و پریشان ہے، مگر یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ اب دنیا منافعے کی بنیاد پر آگے بڑھے گی اور یہ بھی کہ دنیا کا سب سے زیادہ مال لینے والا مُلک امریکا ہے۔ ڈالر آج بھی بین الاقوامی کرنسی ہے۔ چین، امریکا کے ساتھ 800بلین ڈالرز کی تجارت کرتا ہے، جب کہ پاکستان جیسے کم زور معیشت کے حامل مُلک کا بھی سب سے بڑا اقتصادی شراکت دار امریکا ہی ہے۔

اب تو تیل کی طاقت بھی امریکا کے پاس جاچُکی ہے۔ یعنی ٹیکنالوجی کا لیڈر تو وہ پہلے ہی تھا، اب توانائی کا توازن بھی اُس کے پاس ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جو اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے، اُس کے پیچھے فوجی طاقت نہیں۔ عربوں کی بے بسی یہ نہیں کہ وہ متحد نہیں ہیں، بلکہ اب جتنا تیل وہ پیدا کرتے ہیں، اُتنا ہی امریکا کرتا ہے، تو اب وہ کس برتے پر امریکا کو آنکھیں دِکھائیں۔ 

جو لوگ شاہ فیصل کی تیل سپلائی روکنے کی حکمتِ عملی کی مثالیں دیتے ہوئے غزہ کی بات کرتے ہیں اور عربوں کو بے عملی کے طعنے دیتے ہیں، اُنہیں بالکل اندازہ نہیں کہ اب اِس طرح کے کسی اقدام کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ روس نے چوالیس ماہ سے یورپ کو انرجی سپلائی بند کر رکھی ہے، تو اس نے یورپ کا کیا بگاڑ لیا، باوجود یہ کہ وہ یورپ کا سب سے بڑا گیس اور تیل کا سپلائیر تھا۔ 

اُلٹا اُسے اپنا تیل اور گیس35فی صد کم قیمت پر چین، بھارت اور دیگر ممالک کو منّت ترلے کرکے بیچنا پڑ رہا ہے۔ جو یقیناً روس کے لیے کوئی خوشی کی بات نہیں، بلکہ اس کی مجبوری ہے۔ پیوٹن لاکھ بڑے بڑے بیانات دیں، مگر وہ ٹرمپ کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ایسے اقتصادی ماحول میں اگر ٹرمپ کے ٹیرف سے دنیا میں شدید تشویش پائی جاتی ہے، تو یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔

مشکل یہ آن پڑی ہے کہ دنیا کے تمام بڑے رہنما، نیشنلسٹ یعنی قوم پرست ہیں۔چین، روس، امریکا، جاپان، بھارت، یورپ، عرب اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک ان میں شامل ہیں اور یہی امیر مُلک ہیں۔ یہ ممالک کچھ بھی کہیں، لیکن اُن کا اصل مطلب اپنے مُلک کی معیشت رواں رکھنا اور اپنے عوام کو سہولتیں فراہم کرنا ہی ہے۔ پیوٹن اِسی بنیاد پر پچیس سال سے حُکم ران بنے ہوئے ہیں۔

چین دنیا کی دوسری بڑی اکانومی اور ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ، بڑی فوج بھی رکھتا ہے، لیکن وہ بھی ٹرمپ حکومت سے ٹیرف اور اقتصادی معاملات پر مسلسل رابطے میں ہے۔ امریکی بینکس میں اس کے اربوں ڈالرز موجود ہیں اور اس کے لیے سالانہ آٹھ سو بلین ڈالرز کی تجارت کو داؤ پر لگانا بہت مشکل ہوگا، اِسی لیے چین کی تمام تر پالیسی کا محور یہی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے کوئی راہ نکال لی جائے۔

ویسے بھی چین صبر اور جنگ نہ کرنے کی پالیسی کے ضمن میں دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ کیا اُس نے جاپان سے مُلک پر قبضے کا بدلہ لیا، بھارت سے دوبارہ جنگ کی، ہانگ کانگ لڑ کر حاصل کیا، تایئوان پر فوجی چڑھائی کر بیٹھا، نہیں، اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ہر معاملے پر مذاکرات کی راہ بطور پالیسی اپنائی۔روس، یورپ کینیڈا، بھارت، جاپان اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا بھی ٹیرف پر یہی رویّہ ہے۔ 

اُدھر صدر ٹرمپ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا بھر کے ممالک اور اُن کے عوام نے امریکا کو اُس کی انسانی حقوق کی پاس داری اور کُھلی مارکیٹ پالیسی کی وجہ سے خُوب لُوٹا۔ دنیا امیر ہوتی گئی، جب کہ امریکی غریب اور قرضوں میں جکڑ گئے۔ وہ ساری دنیا کا مال خریدتے ہیں، اُن کے لیے نت نئی ٹیکنالوجی متعارف کرواتے ہیں تاکہ معیارِ زندگی بلند ہو، مختلف ممالک کی ڈالرز کے ذریعے مدد بھی کرتے ہیں، لیکن جواب میں یہی دنیا، امریکا کو حقارت سے ٹھکراتی ہے، اُس کے جھنڈے جلاتی اور اُس کے صدر کی تصاویر پیروں تلے روندتی ہے۔

چھوٹے چھوٹے ممالک میں بھی، جو امریکی امداد اور اسلحے سے خود کو طاقت وَر سمجھنے لگے ہیں، روز امریکا کے خلاف ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان ممالک کے طلبہ، جو نام وَر امریکی یونی ورسٹیز میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، امریکی پالیسیز کے خلاف احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ ویت نام، افغانستان اور اب فلسطین، سب معاملات پر احتجاج امریکی سر زمین پر ہوا اور ایسے افراد کو امریکی عدالتیں آزادیٔ رائے کے نام پر چھوڑ دیتی ہیں۔ 

کل تک تو ایسا ہی ہوتا رہا، لیکن اب ایسا نہیں رہا۔ یہ وہ ساری شکایات ہیں، جن کا غبار صرف ٹرمپ ہی کے دل میں نہیں، پوری امریکی قوم اس سے بَھری ہوئی ہے اور اِسی لیے صدر ٹرمپ بھاری اکثریت سے وائٹ ہاؤس پہنچے۔ اُن کے سیکریٹری آف اسٹیٹ، مارکو روبیو کُھل کر کہتے ہیں کہ جسے امریکی پالیسی پسند نہیں، اُسے ہماری سرزمین خوش آمدید نہیں کہے گی۔ 

ہم کسی کو اپنی پالیسی کے خلاف احتجاج کرنے دیں گے اور نہ ہی کسی مُلک کو اجازت دیں گے کہ وہ امریکا کو ہلکا سمجھے۔ یہی وہ سوچ یا غبار ہے، جو ٹیرف کی شکل میں ٹرمپ دنیا بھر پر لاگو کر رہے ہیں۔ وہ بار بار’’ امریکا فرسٹ‘‘ کہتے ہیں۔امریکی اقتصادی طاقت کو نمبر وَن بنانے، اسے دنیا کی سُپر پاور منوانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ٹیرف اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اِس کے ساتھ، ٹرمپ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو امریکا کی بات مان لے گا، اُسے امن و خوش حالی کا گہوارہ بنانے میں مدد دیں گے۔

پاک، بھارت جنگ رکوانے کے کریڈٹ میں تجارت کا ذکر، غزہ کو ’’خوش حال‘‘ بنانے کا متنازع فارمولا، لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلّح کرکے امن کے فروغ، شام میں نئی حکومت کی حمایت اور ایران سے نیوکلیئر ڈیل سب اِسی پالیسی کا حصّہ ہیں۔ یہ تو ضروری نہیں کہ اُن کی ہر بات سے اتفاق کیا جائے، مگر اُسے نظر انداز کرنا بھی مشکل ہے، اِسی لیے اُن سے بات کرنی ہوگی اور بہت کچھ ماننا بھی پڑے گا۔ بڑی طاقتوں نے اُن سے پنجہ آزمائی کرکے دیکھ لیا، لیکن اب وہ سب مذاکرات کی ٹیبل پر ہیں اور یہی صدر ٹرمپ چاہتے تھے۔

مغربی میڈیا بھی، جو ٹرمپ کا سخت ناقد رہا، اُن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔ عالمی تبصرے، تجزیے دیکھ لیں، سب میں ٹرمپ چھائے ہوئے ہیں۔ مغربی میڈیا اپنی تمام تر قوّت صَرف کرنے کے بعد بھی امریکی ووٹرز کو ٹرمپ سے دُور نہیں کرسکا۔ امریکا میں منہگائی آئی، لیکن عوام مطمئن ہیں، وہ غزہ، یوکرین، ایران اور دیگر معاملات میں بھی ٹرمپ کے ساتھ ہیں کہ اُنھوں نے امریکیوں کو ایک قوم پرست دنیا میں تبدیل کردیا ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کو جس قدر جلد اس کا ادراک ہوجائے، اُتنا ہی اچھا ہے، کیوں کہ ٹرمپ کے پاس ابھی ساڑھے تین سال ہیں، جب کہ اُن کے تیور بدلنے میں ٹوئیٹر کے چند الفاظ کی دیر ہوتی ہے اور ساری دنیا اسے’’ڈی کوڈ‘‘ کرنے میں لگ جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے پاکستان پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے۔پاکستان کے اہلِ دانش اور حُکم رانوں کو سوچنا چاہیے کہ کہیں ہم کسی دوسری سمت تو نہیں جارہے، جو خواب تو ہوسکتی ہے، لیکن حقیقت نہیں اور جب جاگیں، تو ماضی کی طرح پچھتاوا ہی ہاتھ آئے۔ ہمیں ماضی میں رہنے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ ایک طرف تو کہتے ہیں کہ دنیا بدل گئی، ٹیکنالوجی نے انتہائی تیز رفتار انقلاب برپا دیا، مگر دوسری طرف وہی گھسی پٹی باتیں عوام کے ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

اپنی سوچنے کی بجائے ہر وقت دوسروں کے غم میں گھلے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے، ہم دنیا بھر کے ٹھیکے دار ہیں، جب کہ پلّے کچھ نہیں۔ قومیں محض ترانوں سے نہیں بنتیں، اِس مقصد کے لیے ٹھوس اقتصادی نتائج اور طاقت درکار ہوتی ہے۔ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی واضح طور پر بتا رہی ہے کہ اب تجارت، معیشت ہی دنیا میں آگے بڑھنے کے پاس ورڈ ہیں۔ دنیا بدل گئی، نسلوں کی ضرورتیں بھی بدل رہی ہیں اور اب اِسی حساب سے آگے بڑھنا ہے۔

معاشی ترقّی کے لیے قوم کو ساتھ لے کر چلنے کا وقت ہے، کیوں کہ کچھ پتا نہیں کہ ٹرمپ کے بعد کوئی اُن سے بھی سخت قوم پرست اقتدار میں آجائے، تو ایسے میں معاشی مضبوطی ہی مُلک و قوم کو پیروں پر کھڑی رکھ پائے گی۔چوبیس کروڑ عوام کا ورد کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، انہیں محنت اور ترقّی کا ویژن دینا ضروری ہے، وگرنہ ایک ٹیرف ہی ہمارے لیے کافی ہوگا۔ یوکرین کی جنگ سے ہونے والی منہگائی نے دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے، جس کے بدترین اثرات پاکستان میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقّی آئی ایم ایف کی دَین نہیں، قوم کی اجتماعی کوششوں کی عکّاس ہے۔ بھیک، قرضوں اور تعریفوں جیسی مشقیں چھوڑ کر ٹھوس عمل کی ضرورت ہے۔جو حکومت اپنے دعووں کے مطابق، چینی وافر مقدار میں ہونے کے باوجود اُس کی قیمتیں کنٹرول نہ کرسکے، عوام اُس سے کسی بڑے اقدام کی کیا توقّع کرسکتے ہیں۔ وزیرِ خزانہ کو آئی ایم ایف ہی سے فرصت نہیں، جب کہ باقی وزراء بھی اپنے اپنے محکموں میں کارکردگی دِکھانے کی بجائے ہر وقت حکومت کی تعریفوں اور دفاع میں مگن ہیں۔

جہاں حکومتی محکموں اور پبلک سیکٹر اداروں کے ملازمین کو کئی کئی ماہ سے تن خوا یا پینشن تک نہ مل رہی ہو، وہاں معیشت کے استحکام کے دعووں اور روزانہ نت نئی معاشی پالیسیز کے اعلانات پر کون یقین کرے گا۔ وزیرِ اعظم، عوامی نمائندوں اور دیگر بااختیار حلقوں کو اِس امر پر ضرور سوچنا چاہیے۔ کس مُلک میں کون آرہا ہے، کون جا رہا ہے، یہ ہمارا مسئلہ نہیں اور نہ ہی اس میں اپنے عوام کو اُلجھانے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے مسائل خود نمٹائیں اور ہم اپنے۔کب تک’’ مثبت خبروں‘‘ کی آڑ میں اپنی کارکردگی چُھپائیں گے۔

ٹرمپ نے پیوٹن سے تین مرتبہ بات چیت کی، اس کے باوجود کہ وہ ایٹمی طاقت اور ایک دوسرے کے دشمن ہیں، پھر ہمارے ڈی این اے میں ایسا کیا انوکھا پن ہے کہ ہر بات پر منہ سے جھاگ اُڑانے لگتے ہیں۔ صدیوں کی دشمنی فرانس اور جرمنی کو راس نہ آئی، چین اور جاپان بھی برداشت نہ کر سکے، تو جنوبی ایشیا کے غریب ممالک کے عوام اس کے کیسے متحمّل ہوسکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ اپنی ٹیرف پالیسی میں ابھی بہت سی تبدیلیاں لائیں گے، جس کے لیے ہمیں بہرحال تیار رہنا چاہیے۔