• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماضی کے قصے کہانیوں میں کھوئے رہنے کی بجائے خود کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا
ماضی کے قصے کہانیوں میں کھوئے رہنے کی بجائے خود کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا

آج کی دنیا کا جادوئی لفظ’’ ٹیکنالوجی‘‘ ہے۔ حالیہ جنگوں میں، خواہ وہ پاک، بھارت چارہ روزہ جنگ ہو، یوکرین کی چالیس ماہ سے جاری لڑائی یا پھر ایران، اسرائیل بارہ روزہ جنگ، ایک چیز کا سب سے زیادہ ذکر رہا اور وہ تھا، وار ٹیکنالوجی۔ یہ ٹیکنالوجی ڈرون، میزائل، انٹیلی جینس، سائبر وار، غرض سب میں مرکزی کردار کی حامل ہے۔

غور کریں، تو جنگی حکمتِ عملی میں انقلابی تبدیلیاں واقع ہوچُکی ہیں۔ اب فوجیں میدان میں ایک دوسرے سے ٹکرانے کی بجائے، فضاؤں میں لڑ رہی ہیں، جس کے لیے ڈرون اور اِسی طرح کے دیگر ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں، جنہیں ہدف سے ہزاروں میل دُور بیٹھ کر مختلف ٹیکنالوجیز کے سہارے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ 

اِن ہتھیاروں کو فضا سے فضا یا فضا سے زمین تک، اِدھر سے اُدھر پہنچانے کے لیے ایک کمپیوٹر کافی ہے۔ پھر یہ کہ ٹیکنالوجی کے استعمال نے اہداف کو درست نشانہ بنانے کی شرح میں بھی اضافہ کیا ہے۔ کوئی اسے الیکٹرانک وار فیئر قرار دیتا ہے، تو کوئی آرٹی فیشل انٹیلی جینس اور آئی ٹی کا کمال بتا رہا ہے، لیکن نتیجہ ایک ہی ہے۔ انسان گھٹتے جا رہے ہیں اور مشینی ہتھیار بڑھتے جا رہے ہیں۔

ہتھیاروں میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے متعلق یہ تمہید باندھنے کا ایک سبب ماہِ اگست بھی ہے، جس کا اِس معاملے سے گہرا تعلق ہے۔ 80سال پہلے جاپان کے دو شہروں، ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ماہِ اگست ہی میں ایٹم بم گرائے گئے تھے، جس کے نتیجے میں دو لاکھ سے زاید افراد ہلاک اور دس لاکھ افراد تاب کاری اثرات زندگی بھر سہتے رہے۔ اِس ایٹمی ٹیکنالوجی نے دنیا میں جنگ اور امن کا نظریہ بدل ڈالا۔ 

اِس سے نہ صرف سیاست اور معیشت میں تبدیلیاں رُونما ہوئیں، ممالک کے باہمی تعلقات نے بھی نئی کروٹ لی۔ جو صدیوں کے دشمن تھے، پکّے دوست بن گئے۔ اِن ایٹمی حملوں نے دنیا میں قیامِ امن کا نظریہ یک سَر بدل دیا۔ لیکن یہ ٹیکنالوجی، ایٹم بم ہی پر نہیں رکی، بلکہ اس سے ایٹمی بجلی گھر بنے، کینسر اور دیگر موذی امراض کا علاج دریافت ہوا۔ شاید ہی آپ کو یقین آئے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی پاور پلانٹ جاپان میں ہیں، جی ہاں وہی مُلک، جو ایٹمی تباہ کاریوں کا جیتا جاگتا نوحہ ہے۔ اِس امر میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ٹیکنالوجی ایک زبردست قوّت بن چُکی ہے اور یہ دنیا کے ہر شعبے پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ 

کیا کوئی تصوّر کرسکتا تھا کہ ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا، جب خیبر پختون خوا کے کسی دُور دراز پہاڑی گائوں میں بیٹھا شخص چند ہزار روپے کے آلے کے ذریعے ہزاروں میل دُور کینیڈا میں بیٹھے اپنے عزیز سے گھنٹوں بات کیا کرے گا اور صرف بات ہی نہیں، دونوں ایک دوسرے کو دیکھ بھی رہے ہوں گے۔ مگر ہم اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ 

ہزاروں میل کی دُوری بے معنی ہوچُکی ہے اور دنیا ہتھیلی میں سمٹ آئی ہے۔موبائل فون، کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کے ذریعے رشتے داریاں نبھائیں یا دنیا کے کونے کونے میں کاروبار کرکے کمائیں۔ جنگ کریں یا خوش حال زندگی کی طرف جائیں۔ گھر بیٹھے مفت علاج کروائیں یا ماحولیاتی اثرات سے بچاؤ ممکن بنائیں، ٹیکنالوجی ہر کام میں آپ کی معاون ہے۔ 

یہاں تک کہ اب اسکول، کالج یا یونی ورسٹی جائے بغیر گھر بیٹھے اِسی ٹیکنالوجی کے سہارے علم و ہنر سیکھے جاسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹیکنالوجی بیسڈ اِن تبدیلیوں سے انسانی زندگی کے معیار میں بھی کوئی تبدیلی آ رہی ہے؟ جو افراد تاریخ اور ٹیکنالوجی پر گہری نظر رکھتے ہیں، اُن کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ایک سو سال میں جتنی تبدیلی انسانی زندگی میں آئی، اِتنی تو گزشتہ ہزاروں سال میں بھی ممکن نہیں ہوسکی تھی، لیکن یہ تبدیلیاں اپنے ساتھ بہت سے چیلنجز بھی لائی ہیں۔ 

چوں کہ ٹیکنالوجی انسان ہی کے ذہن کی پیداوار ہے، تو اب یہ اُسی پر منحصر ہے کہ وہ کیسی زندگی چاہتا ہے۔ ہمیں بہت سے سیمینارز اور کانفرنسز میں جانے کا موقع ملتا ہے، جہاں تقریباً تمام ہی ماہرین اِس امر پر زور دیتے ہیں کہ’’ٹیکنالوجی اپناؤ، آگے بڑھو۔‘‘ سیاست دان، حُکم ران، یہاں تک کہ اب عام آدمی بھی ’’ٹیکنالوجی، ٹیکنالوجی‘‘ ہی کہتا نظر آتا ہے۔ تاہم، دیکھا جائے تو اِس بدلتی دنیا سے لوگ مطمئن ہیں، تو بہت سے ہراساں اور گھبرائے ہوئے بھی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

گزشتہ صدی میں چند ٹیکنالوجیز نے دنیا پر انقلابی اثرات مرتّب کیے، جن کا دائرۂ کار حُکم رانی سے لے کر عام آدمی کی روز مرّہ زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کا تو ذکر ہوچُکا، جو جہاں تباہی کا باعث بنی، وہیں توانائی اور صحت کے مسائل حل کرنے میں معاون بھی ہے۔ دوسری طرف خلائی ٹیکنالوجی ہے، جس نے مواصلات کے شعبے میں انقلاب برپا کیا۔ گزشتہ صدی میں سوویت یونین کے بکھرنے میں اِس ٹیکنالوجی کا بھی بڑا حصّہ رہا کہ اِس کے ذریعے لڑی جانے والی نظریاتی جنگ میں کمیونزم شکست کھا گیا۔

سوویت یونین بکھر کر روس میں سمٹ گئی اور جس مغربی جمہوریت کے خلاف اُس نے ’’آئرن کرٹن‘‘ یعنی آہنی دیوار کھینچ رکھی تھی، وہ دھڑام سے گر پڑی۔مشرقی یورپ اور وسط ایشیا میں خاموش انقلاب آیا، جس کے نتیجے میں حکومتیں نہیں، نظام بدل گئے۔ سوویت یونین سُپر پاور اور ایٹم بموں کے ذخائر رکھنے کے باوجود ٹوٹ گئی۔ یورپ تک پھیلا ایشیا کا سب سے بڑا مُلک، رقبے کے لحاظ سے نو ٹائم زونز رکھنے والی ریاست، اِس مواصلاتی یلغار میں سوکھے پتّوں کی طرح بکھر گئی، جو سیٹلائٹ کے ذریعے مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کے گھر گھر اپنا جادو جگا گئی۔

اِسی اسپیس ٹیکنالوجی نے انسان کو چاند اور مریخ تک پہنچا دیا۔ اُس پر کائنات کے راز منکشف کردیئے، جن سے کائنات کو سمجھنے اور برتنے میں بہت آسانیاں ہو رہی ہیں۔ ویسے ہم جس کوزے میں بند ہیں، جسے’’ تعلیم اور ریسرچ‘‘ کہا جاتا ہے، وہ تو صرف روزی کمانے اور نوکری کا ذریعہ ہے، وگرنہ ہم تو دنیا کو سمجھنے یا خلا میں داخل ہونے کے حقیقی دروازے سے ابھی بہت دُور ہیں۔

ہم چاند اور خلا کی تسخیر ہی کو آخری قدم سمجھے تھے، جب کہ ٹیکنالوجی کے انقلاب نے دنیا کو جانے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ انٹرنیٹ ہی کو دیکھ لیں، جس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے آرٹی فیشل انٹیلی جینس کو جنم دیا۔ اب دنیا کی ترقّی یافتہ اقوام نت نئی ٹیکنالوجی سامنے لا رہی ہیں کہ آئی ٹی، آئی ایل، اسمارٹ فونز، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ڈرونز وغیرہ تو اُن کی بائی پراڈکٹس ہیں، جن کے اچھے، بُرے اثرات سے نمٹنے میں حکومتیں دماغ لڑا رہی ہیں۔ 

اب دنیا کی فوجوں کو بھی پتا چل گیا کہ اُس کے ہاتھ کی بندوق کتنی بے بس ہے کہ اب کسی کو نشانہ بنانے کا کام محض ایک کِلک کے ذریعے، پیجر جیسے بے ضرر فون سے بھی لیا جاسکتا ہے اور وہ تباہی مچائی جاسکتی ہے، جس کا کبھی تصوّر بھی نہیں کیا گیا تھا۔ 

ایسا لگتا ہے، یہ روایتی بم، میزائل اور طیارے شاید کچھ عرصے بعد اعداد وشمار میں تو کام آسکیں گے، لیکن ان کی اثر پذیری، اسمارٹ موبائل فون سے بھی کم ہو جائے گی۔ یہی آئی ٹی انسانی زندگی کا معیار بلند کرنے میں بھی کام آرہی ہے۔ہم نے کورونا وبا کے دوران دیکھا کہ پہلے ویکسین کی ایجاد میں دس، پندرہ سال لگتے تھے۔ عالمی وبائیں ٹی بی، ملیریا اور طاعون وغیرہ انسانوں کو بے بس کرتی رہیں، مگر کورونا ویکسین صرف ڈیڑھ سال میں ایجاد کرلی گئی اور کسی ایک مُلک نے نہیں، کئی ممالک نے یہ کام یابی حاصل کی۔

طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ تاریخِ طب میں ایسی انقلابی تیز رفتاری پہلے کبھی نہ سُنی، نہ دیکھی۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے کاروبار میں نئے اور جدید نظام متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ جیسے اِی کامرس، فیس لیس بینکنگ اور مالیاتی ڈیجیٹلائزیشن۔ گھر بیٹھے کمانے کے مواقع بڑھتے جا رہے ہیں اور اِسی بنیاد پر روزگار کے غیر روایتی طریقے سامنے آ رہے ہیں۔ اِس نے وہ خوف دُور کرنے میں مدد دی، جو مشین کے انسانوں کی جگہ لینے سے پیدا ہو رہا تھا۔ آج کل آرٹی فیشل انٹیلی جینس کے چیٹ بوٹس اور روبوٹس کا ذکر بھی عام ہے، جن سے بڑے پیمانے پر استفادہ بھی کیا جارہا ہے۔ 

اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ آئی ٹی نے سنگین معاشرتی مسائل بھی جنم دیئے ہیں۔ اسے منفی سوچ اور مجرمانہ ذہنیت نے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔دراصل، آسان طریقوں سے دولت کمانا انسانی ذہن کی بڑی کم زوری رہی ہے۔ پاکستان کے ہزاروں نوجوان کشتیوں میں لد کر غیر قانونی سفر کرتے ہیں اور سمندر کی نذر بھی ہو جاتے ہیں۔ اسمارٹ فونز پر جھوٹی سچّی کہانیاں سُن کر مختلف ممالک کا رُخ کر بیٹھتے ہیں۔ دیکھا جائے، تو اِس میں اُن سوشل میڈیا پوسٹس کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جن میں نوجوانوں کو سہانے خواب دِکھا کر لوٹا جاتا ہے۔

جب حکومت سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے خلاف قوانین بناتی ہے، تو بڑے بڑے اہلِ دانش اور انسانی حقوق کے چیمپئن حکومتی فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے حکومتوں اور معیشتوں کو نقصان بھی پہنچایا۔ نیز، کلٹ کی سیاست پروان چڑھانے میں اِس کا بڑا ہاتھ ہے، جس کا مظاہرہ ہم اپنے مُلک میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ٹیکنالوجی نے معاشرتی اقدار تباہ کیں، نفرت اور تشدّد کو بھی فروغ دیا۔ اگر اِس کے باوجود بھی قوانین کی ضرورت نہیں، تو پھر سیاسی، معاشی عدم استحکام اور آمریتوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

امریکا، یورپ اور برطانیہ جیسے ٹیکنالوجی کے موجد ممالک بھی سوشل میڈیا کے مختلف طرح کے استعمال پر تحفّظات رکھتے ہیں اور اِس ضمن میں وہاں قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ امریکا میں’’ ٹک ٹاک‘‘ بِکنے کو ہے، آسٹریلیا اور یورپ میں یوٹیوب اور فیس بُک پر جرمانے عاید کیے جا رہے ہیں۔ ہم جیسے پس ماندہ مُلکوں میں، جہاں تعلیمی معیار کم ہے، ٹیکنالوجی کے استعمال پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ شاطر افراد اِسے مالیاتی فراڈ اور بلیک میلنگ کے لیے دھڑلّے سے استعمال کر رہے ہیں۔

دنیا بدل رہی ہے اور ٹیکنالوجی اس کی ڈرائیونگ فورس ہے، جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقّی یافتہ اقوام ہی اِس میدان میں دنیا کی قیادت کر رہی ہیں۔ اِس کی ایک وجہ تو اُن کا اعلیٰ علمی معیار ہے اور پھر یہ کہ اِن اقوام نے’’محنت میں عظمت‘‘ کا سبق بھی اچھی طرح یاد کر رکھا ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ دنیا میں اقوام کی غریبی ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سیاسی بیان بازی میں تو بہت بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں، مگر کام کم ہی کرتے ہیں۔ شاید ہم’’گولڈن ٹچ‘‘ پر اندھا یقین رکھتے ہیں۔

ہمیں تو یہ بھی کم ہی معلوم ہے کہ دنیا کس طرف جارہی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جس مُلک کا یہ حال ہو کہ اُسے آج کے جدید زمانے میں بھی یہ پتا نہ ہو کہ چینی کی قیمتیں کیسے کنٹرول کرنی ہے، وہاں اعلیٰ ٹیکنالوجی کی باتیں نری حماقت ہی ہوگی۔ہم نے پہلے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا غلط استعمال کیا، اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری اور اب اسے شہر شہر پِھر کر درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالاں کہ ہمارے پاس تمام ٹُولز موجود ہیں۔

اِس ضمن میں ہمارے سامنے آزادیٔ رائے کے علم بردار ممالک امریکا، یورپ اور آسٹریلیا کی مثالیں موجود ہیں، تو پھر قانون سازی کرتے ہوئے خوف کس بات کا ہے؟ ہمارے اہلِ دانش صدی پرانے انسانی حقوق کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں، مگر اُنہیں یہ نہیں معلوم کہ سولہ سال سے کم عُمر کے بچّے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے کس ذہنی خلفشار کا شکار ہو رہے ہیں۔ حالات دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ ٹیکنالوجی ہمارا کچھ نہیں’’بگاڑ‘‘ سکی اور شاید ہم پر آج بھی ماضی ہی میں رہنے کا جنون سوار ہے۔