(گزشتہ سے پیوستہ)
اُستاد دامن کے ذکر کے بغیر پنجابی ادب بلکہ پنجابی ثقافت کی داستان مکمل نہیں ہو سکتی، استاد قیامِ پاکستان سے قبل بھی سیاسی جلسوں میں مدعو کیے جاتے تھے، وہ بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے مگر میں نے انہیں پاکستان کے مشاعروں ہی میں سنا، وہ ہمیشہ دھوتی اور کرتے میں ملبوس ہوتے اور کلام سنانے سے پہلے اور دورانِ مشاعرہ بھی پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے تھے۔ میں ایک دفعہ انہیں ملنے کیلئےان کے حجرے میں گیا جو ٹکسالی کے آغاز ہی میں تھا، ان کے عشاق بہت کثیر تعداد میں تھے اور انکی بہت خدمت کرتے تھے۔ میرے بیٹھے بیٹھے دس بارہ عقیدت مند آئے اور ہر کوئی کھانے پینے کی کوئی چیز لے کر آیا، وہ اپنے عشاق کو بتا رہے تھے کہ اداکار علائو الدین اور دانشور حنیف رامے انہیں کہتے تھے کہ وہ حجرے سے نکلیں اور ہم آپ کے شایانِ شان قیام گاہ کا انتظام کرتے ہیں مگر میں نے ہمیشہ انکار کیا۔ اس کے بعد میری طرف اشارہ کر کے کہا قاسمی صاحب بھی یہی کہنے کیلئے آئے ہیں مگر میں نے ان سے بھی معذرت کر لی ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی پر قابو پایا کہ میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ میں اُستاد کے پاس اس غرض سے آیا ہوں۔ اُستاد کے حوالے سے ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے، پنجاب یونیورسٹی میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ گرمیوں کے دن تھے اور مشاعرہ ایک کھلی جگہ پر تھا۔ اُستاد کا شعر سنانے کا انداز ہی سب سے الگ تھا۔ وہ اسٹیج پر چلتے پھرتے ہوئے کلام سناتے تھے۔ منتظمین نے ایک ریوالونگ پنکھا اسٹیج کیلئے بھی لگایا ہوا تھا۔ اُستاد کی باری آئی تو حسب معمول انہوں نے کھڑے ہو کر اپنا کلام سنایا۔ لباس وہی کرتا اور وہی دھوتی تھی۔ پنکھا جب گھومتے گھماتے، اُستاد کی طرف آتا تو ان کی دھوتی ادھر ادھر ہو جاتی، جب تین چار بار ایسے ہوا کہ دھوتی ان کا ستر چھپانے میں کامیاب نہ ہو سکی تو طلبہ نے شور مچا دیا ’’پنکھا بند کرو! پنکھا بند کرو‘‘ مگر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ سو اُستاد کے کلام سنانے کے دوران طلبا ان کا کلام بھی سنتے رہے اور پنکھے کی بدتمیزی بھی دیکھتے رہے۔ مجھے کراچی کا ایک مشاعرہ بھی یاد آ رہا ہے۔ سامعین ہزاروں کی تعداد میں تھے اور مشاعرے کی صدارت حفیظ جالندھری کر رہے تھے۔ آخر میں ان کی باری آئی تو حسب عادت انہوں نے اپنی زندگی کے اس پہلو پر بھی بات کی کہ انہوں نے کشمیر کی آزادی کیلئے بھی ایک ورکر کے طور پر اپنا فرض ادا کیا۔ اس دوران ان کی ٹانگ پر پندرہ گولیاں لگیں۔ اس پر میری ہنسی نکل گئی۔ مشاعرے کے اختتام پر انہوں نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور کہا تم ہنسے کیوں تھے۔ میں نے کہا حفیظ صاحب! ٹانگ چھوٹی ہے اور گولیاں زیادہ تھیں۔ آئندہ گولیاں ذرا کم بتایا کریں۔ حفیظ صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ آئندہ ایسی حرکت کی تو تم حفیظ کا دوسرا روپ بھی دیکھو گے۔ حفیظ صاحب نوجوانوں سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی اس عمر کی شرارتیں برداشت کر لیتے تھے۔ حفیظ صاحب کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے اور میرا خیال ہے کہ بائیں بازو کے شعراء نے یہ گھڑا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حفیظ صاحب جوتا خریدنے کے لیے ایک دکان پر گئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ دکاندار نے انہیں پہچانا نہیں۔ دراصل مشہور لوگوں کو اگر کوئی پہچان نہ پائے تو انہیں بہت گراں گزرتا ہے۔ حفیظ صاحب نے جب محسوس کیا کہ دکاندار نے انہیں نہیں پہچانا تو کہنے لگے ’’میں حفیظ ہوں‘‘۔دکاندار نے کہا اچھا اچھا… آپ جوتا پسند کریں۔ حفیظ صاحب نے اسے مزید کہا’’میں نے شاہنامہ اسلام اور پاکستان کا قومی ترانہ لکھا ہے‘‘۔ اُس نے کہا جی جی، یہ جوتا دیکھیں آپ کو پسند آئے گا۔ پھر حفیظ صاحب نے محسوس کیا کہ اس جاہل کو اپنا نام بتانا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے دکاندار کو مخاطب کیا اور کہا’’ میں ابوالاثر حفیظ جالندھری ہوں۔‘‘ یہ سن کر دکاندار نے ان سے پرجوش معانقہ کرتے ہوئے کہا بہت خوشی ہوئی کہ آپ جالندھر کے ہیں میں بھی جالندھر ہی کا ہوں۔اور آخر میں آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ شاعروں کے حوالے سے کچھ چٹکلے مشہور ہیں۔ حفیظ صاحب بھی اس کی زد میں آئے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ حفیظ صاحب کا شمار اردو کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری قاری کو اپنی گرفت میں ایسے لیتی ہے کہ وہ پھر زندگی بھر اس سے نکل نہیں سکتا۔ شعر کی نزاکتوں سے واقف حفیظ صاحب کے سامنے میں نے ان کا ایک شعر پڑھا، اس میں مجھ سے ایک لفظ آگے پیچھے ہو گیا۔ وہ ناراض ہو گئے اور کہا حفیظ یہ غلطی نہیں کر سکتا۔ اصل شعر یہ ہے اور پھر وہ شعر سنایا۔ افسوس اس وقت وہ شعر مجھے یاد نہیں آ رہا۔ اگر یاد آ جاتا تو آپ حیران ہو جاتے کہ بڑا شاعر شعر کہتے وقت سب سے بڑا نقاد وہ خود ہوتا ہے اور حفیظ صاحب تو اس معاملے میں بہت حساس تھے۔