• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسٹریلیا(سڈنی)اور پاکستان (لاہور )کے موسم جیسے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ایسے ہی دونوں ممالک کے سماجی اور معاشی طرز زندگی میں بھی نمایاں فرق ہے۔اس وقت سڈنی میں سردی کا موسم اپنے جوبن پر ہے اس کے باوجود معمولات زندگی میںگہما گہمی نظر آتی ہے نہ یہاں گیس کی لوڈشیڈنگ نہ بجلی کا بحران؛لاہور میں اس وقت بارش اور حبس کا راج ہےوہاں بجلی کا جانا اور گیس کا بند ہونا ایک معمول بن چکا ہے۔ آسٹریلیا کی معیشت میں یہاں کے عوام کا بڑا اہم رول ہےہر شخص دستاویزی معیشت کے سسٹم کا حصہ ہےکیش اکانومی برائے نام اور پلاسٹک اکانومی نظام کا حصہ ہے ۔آسٹریلوی حکومت عوام سے جی ایس ٹی ڈی سیٹ تنخواہوںاور دیگر شعبوں میںٹیکس کی کٹوتی کرتی ہے۔سال کے آخر میں ٹیکس دینے والے صارف کو تفصیل کے ساتھ بتایا جاتا ہےکہ اس کی ٹیکس کٹوتی کی رقم کا حصہ سوشل سیکورٹی،چیرٹی دیگر شعبوں میں کہاں کہاں خرچ کیا گیا ہے ۔بطور انسان چاہے وہ مغربی دنیا کا حصہ ہو یا مشرقی دنیا کا سب ٹیکس سے بچنے کی سوچ رکھتے ہیںلیکن آسٹریلیا اور مغربی ممالک میںٹیکس دہندہ کو بتا دیا جاتا ہےاس کی ٹیکس کٹوتی کی رقم کن کن پیداواری شعبوں میں صرف کی جارہی ہے۔ ہمارے پاکستان میں ایف بی آر یا کوئی بھی ادارہ ایسا کرنا گوارہ نہیں کرتا بلکہ ایسا سوچنے اور پوچھنے والوں کوقانونی امور میںمداخلت سمجھا جاتا ہے یہاں فرق واضح ہوتا ہے ترقی یافتہ ممالک اور کم ترقی یافتہ ممالک کا۔ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس سسٹم منصفانہ نہیں ہے یا پھر غیر شفاف ہے ۔وہاں امیر اور طاقتور طبقے (پارلیمنٹ وغیرہ )کوسخت سے سخت ٹیکس سسٹم کچھ نہیں کہتا ۔ان کی مراعات بے پناہ ہوتی ہیںاور ٹیکس دینے کا حصہ بہت کم ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں وفاق اور صوبوں کی سطح پر واضح شفاف ڈیجیٹل ٹیکس رائج ہے ۔پاکستان کے بجٹ کا زیادہ حصہ سود انتظامی اخراجات اور دفاع وغیرہ پر خرچ ہو تا ہے۔آسٹریلیا میںزیادہ وسائل تعلیم،صحت اورسماجی شعبوں کی ترقی انفراسٹریکچرڈویلپمنٹ اور کم وسائل والےافراد اور خاندانوں پر خرچ کئے جاتے ہیںجن خاندانوں کی آمدنی نہیں ہوتی انکو ٹیکس میں 45 فیصد تک چھوٹ دی جاتی ہے۔پاکستان میں ہر طرف ٹیکس ہی ٹیکس ہیں جہاں براہ راست سے زیادہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہےآسٹریلیا میں جی ایس ٹی 10فیصد اوسط سے ہے جبکہ پاکستان میں 17 سے 18 فیصد تک ہے۔ یہاں پبلک اسکولوں میںتعلیم مفت اور ہائرا سکولوں میں حکومت سبسڈی دیتی ہے آسٹریلیا میں ٹیکس نظام سخت ضرور ہے مگر غیر منصفانہ نہیں ہےیہاں کے عوام کی سیاسی امور میں برائے نام دلچسپی ہے۔سب لوگ مثبت انداز میں روٹی کمانے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہیں البتہ پچھلے دنوں غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف ہارج برج پر ایک لاکھ سے زائد افراد کا پر امن احتجاج ہوا۔ یہاں کی مقامی حکومت یا وفاقی حکومت (کنبراCANBARA )کی طرف سے کوئی ایکشن ایسا نہیں لیا گیا جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیلےالبتہ سیکورٹی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ۔اسی طرح آسٹریلیا کی سماجی زندگی اورا سپورٹس میں بے پناہ دلچسپی ہر لحاظ سے قابل ذکر ہے۔ آسٹریلیا میں مقیم پاکستانیوں اور جنوبی ایشیا کے ممالک میں اردو ادب کا فروغ ایک مثبت قدم ہے جس میں مختلف کتب کے مصنف طارق مرزا صاحب اور دیگر کئی احباب مصروف عمل ہیں،یہاں ادب کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر کوئی پابندی یا رکاوٹیں نہیں ہیںاس لیے لوگ دل کھول کر ادب کے بارے میں آداب کے ساتھ محفلیں سجاتے ہیںاور اپنے دل کو بہلاتے ہیں۔

دونوں ممالک میں صنعت و تجارت کے فروغ کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے لیے اعتماد کی فضا قائم کی جائے اس وقت پاکستان کے تاجروں کو آسٹریلیا کی مارکیٹ تک رسائی نہیں اس ضمن میں کافی سہولتیں مل سکتی ہیںمگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اسکل سیکٹر کی ترقی کے لیے اپنی ترجیحات بدلنا ہوںگی اس وقت بابو کلچر کی وجہ سے متعلقہ ادارے وہ کام نہیں کر رہے جو انہیں عملی طور پر کرنے چاہئیں۔اگر پاکستان اپنے ہاں اسکلز سیکٹر کی ترقی پر توجہ بڑھاتا ہے تو اس سے پاکستان سے آسٹریلیا میں ہر شعبہ کی ملازمتوں کے لیے افرادی قوت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین