• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کا قصہ کراچی سے محبت کرنے والوں اور کراچی کی تاریخ ٹٹولنے والوں کیلئے ہے۔آج کے قصے میں ان لوگوں کو کسی قسم کی دلچسپی دکھائی نہیں دے گی جو لوگ دنیا کے کونے کونے سے کراچی میں روزگار تلاش کرنے آتے ہیں اور روزگار مل جانے کے بعد یہاں آباد ہوجاتے ہیں۔ مگر کچھ کہنے سے پہلے میں ایک تاریخی حقیقت پھر سے دہرانا چاہتا ہوں میں یہ حقیقت متواتر بیان کرتا رہا ہوں اور آج پھر سے دہرانا چاہتا ہوں اور آج واضح کردوں کہ یہ تاریخی حقیقت میں آخری دم تک دہراتا رہوں گا۔میں تاریخ کا معمولی سا طالب علم ہوں میں تاریخ سے منکر نہیں ہوسکتا۔

آزادی کا دن صرف وہ شخص منا سکتا ہے جس نے ایک عمر کسی کی قید و بند میں پڑے ہوئے گزاری ہو۔انیس سو سینتالیس سے پہلے پاکستان دنیا کے نقشے پر دکھائی نہیں دیتا،یہ تاریخی حقیقت ہے ، آپ انیس سو سینتالیس سے پہلے کے اٹلس اٹھا کر دیکھ لیں پاکستان کوئی چھوٹی موٹی چیز تو تھا نہیں کہ طاقتور ممالک نے اٹھا کر اپنے یہاں چھپالیا ہو۔ انیس سو سینتالیس سے پہلے پاکستان کسی کے قید و بند میں نہیں تھا انیس سو سینتالیس سے پہلے پاکستان تھا ہی نہیں ۔ تصدیق کیلئے دنیا کا نقشہ دیکھ لیجیئے ۔انیس سو سینتالیس سے پہلے پاکستان مسلمانوں کے ایک الگ تھلگ ملک کیلئے سیاسی تحریک تھا پاکستان کا کوئی وجود نہیں تھا تحریک ایک ٹھوس حقیقت کا نعم البدل نہیں ہوسکتی ۔ ایک تحریک کامیابی سے اختتام پذیر ہونے کے بعد حقیقت کا روپ دھار لیتی ہےپاکستان اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ قاعدے ، قوانین ،دستور بنانا حکومتوں کا کام ہوتا ہے حکام نے طے کررکھا ہے کہ چودہ اگست پاکستان کا یوم آزادی ہے اس روز پاکستان قید و بند کی صعو بتیں برداشت کرنے کے بعد آزاد ہوا تھا ۔ اسلئے چودہ اگست پاکستان کایوم آزادی ہے حکومتیں نہیں بتاتیں کہ پاکستان کس ملک کے قیدوبند میں تھاتاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کسی ملک کے قید و بند میں نہیں تھا بہر حال میں خود کو اس الجھن سے دور رکھنا چاہتا ہوں حکومتیں اور حاکم جو کہتے ہیں وہ سو فیصد درست ہے تاریخ غلط ہے ۔انیس سو سینتالیس سے پہلے پاکستان کس ملک کی قید میں تھا؟چودہ اگست انیس سو سینتالیس کے روز قید و بند کی دیواریں توڑ کر باہر نکل آیا تھا۔ پاکستان آزاد ہوچکا تھا اس روز سیاسی تحریک کی بدولت پاکستان ایجاد نہیں ہوا تھا پاکستان بنا نہیں تھا دنیا کے نقشہ پر پاکستان نمودار نہیں تھا پاکستان کسی کی قید و بند سے نکل کر آزاد ہوا تھا اس لئے چودہ اگست انیس سو سینتالیس کا دن ہم یوم آزادی کے طور پر مناتے ہیں یوم پیدائش کے طور پر نہیں ۔

آپ فیصلہ کریں کہ پاکستان کسی طاقت ور ملک کے قبضہ قدرت میں قید تھا اور چودہ اگست انیس سو سینتالیس کے دن آزاد ہوا تھا اسلئے ہم چودہ اگست کے روز یوم آزادی یعنی آزادی کا دن مناتے ہیں یا پھر ایک بھرپور سیاسی تحریک کے نتیجے میں ہندوستان کے دوحصوں پر پاکستان بن کر ابھرا تھا ۔ اب یہ بحث مجھے بے معنی لگتی ہے چشم دید گواہ کے طور پر میں آپ کو چودہ اگست کے بعد اچانک ہونیوالی تبدیلیوں کے بارے میں کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں۔انگریز سرکار نے کراچی کے سب راستوں میں لمبے چوڑے راستے کا نام رکھابندرروڈ، کیماڑی سے شروع ہوکر بندر روڈ ٹکری پر جاکر ختم ہوتا تھا ٹکری وہ چھوٹی سی پہاڑی تھی جہاں اب قائد اعظم کا مقبرہ بنا ہوا ہےٹکری کےمعنی ہیں چھوٹی سی پہاڑی، خوبصورت جگہ تھی۔ روزانہ شام ہونے سے پہلے وہاں پر کراچی کے لوگ امڈ آتے تھے ان میں پارسی کرسچن، مسلمان ، ہندو ، سکھ اور دیگر مذاہب کے پیروکار آکر جمع ہوتے تھے میلے کا سا سماں ہوتا تھا کھانےپینے کی اشیا کےاسٹال لگ جاتے تھے ٹکری کے اطراف سولجر بازار،دولت مند پارسیوں اور ہندوؤں کی کالونیاں ہوتی تھیں آنکھوں کو چکا چوند کرنے جیسی کوٹھیاں اور بنگلوز بنے ہوئے تھے کراچی کی نشوونما اور تعمیراتی ترقی میں پارسیوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ تعجب کی بات ہے کہ اکثرپارسیوں کے نام مسلمانوں کے ناموں جیسے ہوتے ہیں اس لئے وہ صفحہ ہستی سےمٹ جانے سے بچ گئے مثلاً جگ مشہور کلفٹن سو ڈیڑھ سو برس گزر جانے کے باوجود جہانگیر کوٹھاری پریڈ کہلوانے میں آتا ہے، حالات کی بے رحمی کے باوجود کلفٹن آج بھی خوبصورت ہے جہانگیر کے نام سے صدر میں دیدہ زیب کرکٹ گراؤنڈ اور پارک موجود ہے۔کرکٹ گراؤنڈ کو پھول،پودوں،کیاریوں اور درختوں سے سجا کر پارک میں شامل کردیا ہے اب وہاں کرکٹ کا کھیل نہیں کھیلا جاتا ،پارک آج تک پارسی نام جہانگیر کے نام سے مشہور ہے جہانگیر پارک تقریباً سو برس پرانا پارک ہے ۔

بندر روڈ پر پرانے ریڈیو پاکستان کراچی کے سامنے تاج محل سینما سے منسلک پارسیوں نے خوبصورت اینی بیسنت میموریل ہال بنوایا تھا ،جہاںحاضرین کو تھیاسافی کا فلسفہ پڑھایا اور سمجھایا جاتا تھا۔ پاکستان کو پاک صاف رکھنے والوں کو اینی بیسنت اور تھیا سافی کے نام اچھے نہیں لگے انہوں نے تھیاسافی ہال کو تہس نہس کردیا، ڈائریکٹر کو قتل کردیا گیا ، مزید توڑ پھوڑ اور زیاں سے بچانے کیلئے اینی بینست اور تھیا سافیکل ہال کا نام تبدیل کرکے جمشید میموریل ہال رکھا گیا مگر اب جمشید میموریل ہال میں پہلے جیسی چہل پہل کہاں! عالیشان لائبریری اجڑ چکی ہے نام اب بھی وہی جمشید میموریل ہال۔

فقیر کو پلکوں سے کرچیاں چننے دیجئے … میں آپ سے کراچی کی باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

تازہ ترین