عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کی طرف سے مقدمات نمٹانے کیلئے ٹائم فریم کی منظوری ان کمزور اور پسے ہوئے طبقات کیلئے تقویت کا ذریعہ ثابت ہوگی جو مقدمات کی طوالت اور طریق کار کی پیچیدگی کے باعث اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑنے کے مقابلے میں ان سے دستبرداری یا ظلم پر آواز اٹھانے کے مقابلے میں خاموشی کو ترجیح دینے میں عافیت محسوس کرتے رہے ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت تمام ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی شرکت سے منعقدہ اجلاس میں قتل و جائداد کے تنازعات 24ماہ۔ وراثت، پبلک ریونیو اور رقوم کے تنازعات 12ماہ ۔ کم عمر اشخاص کے فوجداری کیسز 6ماہ میں نمٹانے کی مدت طے ہوئی ہے۔ اجلاس کی کارروائی سے ایسے میکانزم کی جلد آمد کا امکان نمایاں ہوا ہے جس میں 24گھنٹوں میں زیر حراست فرد کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاسکے گا اور مختلف النوع مقدمات کے فیصلے طے شدہ ٹائم فریم میں آسکیں گے۔ایسے واقعات خال خال سہی مگر لین دین، تجارتی معاملات، فیملی دعووں، کرایہ دار اور مالک جائداد کے درمیان مقدمات، وراثتی حقوق کے مسائل، اراضی اور لیبر شکایتوں سمیت کیسز میں بعض ایسے تجربات بھی سامنے آئے کہ فیصلے کی افادیت دھند لا گئی۔ ایک نسل کے دور میں شروع ہونے والے زمین یا جائداد کے تنازع کا حتمی فیصلہ دوسری نسل میں سامنے آئے یا کسی ملزم کی موت کے بعد اسکے بریت کا فیصلہ آئے تو انصاف تو ہوگیا مگر یہ بات اس قانونی اصول سے مطابقت نہیں رکھتی جس میں انصاف میں تاخیر کو انصاف سے محرومی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف انصاف کی جلد فراہمی یقینی بنائی جائے، دوسری جانب ایسا میکانزم بنایا جائے جس میں ان غریبوں کی بھی انصاف تک رسائی ہوسکے جو اپنے حق کے حصول کیلئے مختلف مدوں میں رقوم خرچ کرنے کے قابل نہیں ۔