شہر قائد کراچی میں شدید بارش کی جو پیش گوئیاں محکمہ موسمیات کی جانب سے کئی ہفتوں کی جارہی تھیں گزشتہ روز اس موسم میں پہلی بار ان کا عملی مظاہرہ ہوا۔ محکمہ موسمیات کے مسلسل انتباہات کے باعث یہ توقع بے جا نہیں تھی کہ مقامی اور صوبائی انتظامیہ نے ہر قسم کی صورت حال سے نمٹنے کا اطمینان بخش بندوبست کرلیا ہوگا لیکن عملاً ہوا وہی جس کا تجربہ ہر برسات میں ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی دارالحکومت کے رہنے والے کرتے چلے آرہے ہیں۔ دیوار گرنے،کرنٹ لگنے اور ڈوبنے کے نتیجے میںدس افراد جاں بحق ہوگئے، اہم شاہراہوں سمیت شہر کی اکثر سڑکیں ندی نالوں میں تبدیل ہوگئیں، انڈر پاس پانی سے بھر گئے، ریڈ زون بھی گھنٹوں پانی میں ڈوبا رہا، بدترین ٹریفک جام کے سبب سیکڑوں گاڑیاں بند ہوگئیں، پیٹرول ختم ہوگیا، شہری گھنٹوں تک پانی میں پھنسے رہے۔شہر کے 550 فیڈر بند ہوگئے اور بیشتر علاقوں میں بدھ کی دوپہر تک بجلی بحال نہیں ہوسکی ۔ ترجمان کے الیکٹرک کے مطابق موسلادھار بارش کے باعث شہر میں شاہراہیں زیر آب ہیں نیزشہر میں ایندھن کی سپلائی بند ہونے سے بھی کے الیکٹرک کی گاڑیوں کی آمدورفت متاثر ہورہی ہے۔دوسری جانب علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ بارش رکنے کے کئی گھنٹے بعد بھی عملہ فالٹ دور کرنے نہیں پہنچا۔شہر میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بھی بری طرح متاثر ہے۔ ایک اخباری رپورٹ میں بالکل درست نشان دہی کی گئی ہے کہ کراچی میں تیز بارشوں کے نتیجے میں سیلابی صورتحال کا پیدا ہونا نئی بات نہیں۔ پچھلے کم و بیش ساڑھے تین عشروں سے شہر کو بارش کی صورت میں ایسے ہی بحرانی حالات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً شارع فیصل اور آئی آئی چندریگر روڈ کی ابتر حالت شہری حکومت کی ناقص کاکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مون سون بارشوں کے نتیجے میں بارہا کراچی میں اربن فلڈنگ کی صورتحال دیکھی گئی، مگر ہر سال یہی سوال اُٹھتا ہے کہ شہری حکومت 35سالوں کے دوران مرکزی شاہراہوں پر نکاسی کا نظام بہتر نہ کرسکی۔1992ء میں کلفٹن اور باتھ آئی لینڈ جیسے پوش علاقوں میں شدید بارش کے بعد کئی دنوں تک پانی جمع رہا۔ستمبر 2011ء میں تقریباً 140ملی میٹر بارش نے شہریوں کو نہایت سنگین مسائل سے دوچار کیا ۔2020ء میں کراچی کی تاریخ کا بدترین سیلاب یا اربن فلڈنگ دیکھنے میں آیا۔ اس دوران 40سے زائد ہلاکتیں اور اربوں روپے کا نقصان ہوا۔جولائی 2022ء میں کئی روز کی مسلسل بارش نے شہر کو سخت افراتفری سے کا نشانہ بنایا۔سال 2024ء فروری میں غیر معمولی بارش نے بجلی کے 700فیڈرز ٹرپ کر دیے اور ایک بار پھر مرکزی شاہراہیں پانی میں ڈوب گئیں۔ماہرین کے مطابق کراچی میں اربن فلڈنگ کی بنیادی وجوہات میں نکاسی آب کا ناکارہ نظام، کنکریٹ کے جنگل کہلانے والی بے ہنگم رہائشی اور کاروباری تعمیرات، برساتی نالوں پر تجاوزات یا قبضے اور موسمیاتی تبدیلی شامل ہے۔2025ءکے مون سون سے پہلے بھی ماہرین اور قومی آفات مینجمنٹ اتھارٹی نے واضح کر دیا تھا کہ نکاسی کے نالوں کی موثر صفائی نہ ہوئی تو کراچی ایک بار پھر ڈوب سکتا ہے اور خدشات کے مطابق ایسا ہی ہوا۔ 19اگست کو ہونیوالی بارش نے انتظامیہ کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ واقعاتی حقائق پر مبنی یہ رپورٹ شہری اور صوبائی حکام کیلئے اپنی ذمے داریوں کے حوالے سے وضاحت طلب ہے۔دنیا میں کتنے ہی ایسے بڑے شہر ہیں جن میں کراچی سے کہیں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں لیکن وہاں نہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں، نہ بجلی کا نظام معطل ہوتا ہے، نہ شہریوں کوٹریفک جام کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک ہی بارش میں شہر کا آفت زدہ نظر آنا یقینی طور پر بدانتظامی اور ذمے داریوں کی ادائیگی میں غفلت کا نتیجہ ہے جس کے ازالے کے بغیر حکمرانی کے حق کا دعویٰ جائز نہیں کہلا سکتا۔