• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاپتہ یا گم شدہ افراد کا مسئلہ ایک عرصہ سے بحران کی صورت میں موجود تھا جس کے حل کیلئے پس پردہ سول وفوجی قیادت کے مابین بات چیت جاری تھی۔ منگل کو قومی اسمبلی کے بعد سینٹ میں بھی کثرت رائے سے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کا بل منظور کرکے یہ مسئلہ حل کر لیا گیا۔ اپوزیشن نے ترمیمی بل کی شدید مخالفت کی۔ اس کیخلاف ایوان میں نعرے بازی کی اور واک آئوٹ بھی کیا مگر حکومتی بنچوں نے اسے قومی مفاد میں قرارر دے کر منظور کر لیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے انسداد کیلئے سیاست سے بالاتر ہو کر قانون سازی کرنا ہوگی۔ بل کی منظوری کیلئے تحریک وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے پیش کی ایوان کو بتایا گیا کہ فوجی اور سول اداروں کو مشتبہ افراد حراست میں لینے کا اختیار نہ دیا گیا تو یہ مسئلہ بڑھتا ہی رہے گا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے بھی اس مسئلے میں ایک کمیٹی بنائی تھی جو اپنا کام مکمل نہ کر سکی دہشت گردی کے انسداد کے ایکٹ کےتحت فورسز کو تحفظ دینا پارلیمنٹ کا کام ہے جو اس نے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کر دکھایا۔ انسداد دہشت گردی کو موثر بنانے کیلئے قانون سانحہ اے پی ایس کے بعد بنایا گیا تھااسے مزید موثر بنانے کی ضرورت تھی جو نئی ترمیم سے پوری ہوگئی۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس سے لاپتہ افراد کا مسئلہ بخوبی حل ہو جائے گا۔ یہ مسئلہ بھی حل ہو جائیگا کہ فوج اور خفیہ ایجنسیاں مشتبہ افراد کو کتنے عرصہ تک پوچھ گچھ کے لئے اپنی تحویل میں رکھ سکتی ہیں۔ ماضی میں عموماً یہ ہوتا رہا ہے کہ ایجنسیاں مشتبہ افراد کو پکڑ لیتی ہیں مگر قانون واضح نہ ہونے کی وجہ سے لواحقین کو ان کی گرفتاری کے بارے میں کچھ نہ بتایا جاتا اس سے ابہام ہوتا اور گرفتار شدہ شخص یا اشخاص کے رشتہ دار اور ہمدرد احتجاجی جلوس نکالتےاور دھرنے دینے پر مجبور ہو جاتے ۔ توقع ہے کہ قانون بننے کے بعد یہ صورتحال پیدا نہیں ہوگی۔

تازہ ترین