(گزشتہ سے پیوستہ)
میں جب پاک ٹی ہاؤس لاہور کے سامنے سے گزرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے زاہد ڈار لوہے کے راڈ سے ٹیک لگائے کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں اندر داخل ہوتا ہوں تو کھڑکی کے ساتھ والی پہلی سیٹ پر احمد مشتاق ،منو بھائی اور جاوید شاہین بیٹھے ہیں۔یہ تینوں صف اول کے قلم کار تھے اور اتفاق سے تینوں تھتھے بھی تھے ۔ان دنوں دہشت گردوں کا ایک گروہ گھروں میں داخل ہوتا تھا اور سوئے ہوئے لوگوں کو ہتھوڑے سے ہلاک کر دیتا تھا۔اس گروہ کو ہتھوڑا گروپ کا نام دیا گیا تھا پاک ٹی ہاؤس کے ستم ظریفوں نے احمد مشتاق ،منو بھائی اور جاوید شاہین کو ’’تھتھوڑا گروپ‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ ایک اور ٹیبل پر انتظار حسین،شہرت بخاری،سجاد باقر رضوی،اعجاز حسین بٹالوی اور یونس جاوید بیٹھے دکھائی دیتے تھے ۔دس محرم کو اعجاز بٹالوی مجلس پڑھتے تھے۔باتھ روم کے ساتھ والی بڑی ٹیبل پر اسرار زیدی نوجوان ادیبوں کو کیمونزم پر لیکچر دیا کرتے تھے۔ایک دن نذیر ناجی جھومتے جھامتے ٹی ہاؤس میں داخل ہوئے اسرار زیدی کو دیکھا تو سیدھے ان کی طرف آئے اور چپ چاپ کھڑے ہو گئے اس دوران زیدی صاحب کی نظر ناجی پر پڑی تو ناجی نے انہیں مخاطب کر کے کہا ’’ زیدی صاحب! اگر میرا حافظہ غلطی پر نہیں تو 1952 میںآپ نے میرے ساتھ...مگر ناجی کی بات مکمل ہونے سے پہلے انہوں نے اپنی ماؤ کیپ سر پر رکھی اور کان لپیٹ کر باہر نکل گئے۔پاک ٹی ہاؤس میں رنگا رنگ ادیب آتے تھے اور مختلف الخیال ہونے کے باوجود آپس میں گھل مل جاتے تھے ۔ان میں سے ایک صاحب دماغی طور پر پریشان حال تھے ان کا نام نواب ناطق دہلوی تھا وہ اکیلے بیٹھتے تھے۔کسی زمانے میں’’ پاکستان ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں تھے۔وہ عجیب و غریب شعر کہتے تھے ان کا ایک شعر بہت مشہور ہوا تھا
ناطق کہ سخن تیرا ہے تریاق تریہا
زنباق تریہا لکا زنباق تریہا
کسی نے پوچھا نواب صاحب اس شعر کا مطلب کیا ہے ؟ اس پر وہ غیظ و غضب میں آ گئے اور بولے کبھی کسی نے غالب سے اس کے کسی شعر کا مطلب پوچھا تھا۔حلقہ ء ارباب ذوق کے اجلاس ٹی ہاؤس کے بالائی حصے میں ہوتے تھے ان اجلاسوں میں صف اول کے ادیب اور نوجوان شامل ہوتے تھے ایک بزرگ افسانہ نگار فضل الرحمن تھے ان کے افسانے جنسی نوعیت کے ہوتے تھے ۔مگر نماز کے وقت وہ حلقے سے نکل کر وہیں نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے تھے کئی دفعہ ایسے بھی ہوا کہ خان صاحب اپنا افسانہ پڑھ رہے ہوتے اور اچانک ان کی بیگم وارد ہوتیں اور فضل الرحمن خان صاحب کو جلی کٹی سنانے لگتیں۔ایک روز ایسا ہوا کہ حلقے میں بغاوت ہو گئی اس حلقے کو رجعت پسند قرار دیا گیا اور ترقی پسند حلقے کے اجلاس وائی ایم سی اے ہال میں ہونے لگے شہزاد احمد اس حلقے کے سیکرٹری مقرر ہوئے اور ایک دفعہ ایک ناگوار واقعہ بھی ہو گیا حلقے نے یوم پاکستان منانے کا اعلان کیا اور اس بار لیفٹ رائٹ کی تفریق کے بغیر بہت سے ادیب شریک ہوئے اجلاس بہت اچھے اور پُرسکون ماحول میں جاری رہا صدارت ممتاز دانشور ایرک سپرین کر رہے تھے وہ لیفٹ کے ایک بڑے نام تھے انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز ہی ایسے جملوں سے کیا جس سے پاکستان کی نفی ہوتی تھی ان سے پہلے کے مقررین کی تقریروں میں بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا گیا تھا اور جب صاحب صدر نے بھی انہی خطوط پر اپنی تقریر کی بنیاد رکھی تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے کھڑے ہو کر کچھ نامناسب سے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ،میرا خیال تھا اس محفل میں شاید میں اکیلا ہوں اور صرف مجھے یہ باتیں بری لگی ہیں پھر جب کئی ادیبوں نے میری آواز میں آواز ملائی جن میں مستنصر حسین تارڑ بھی تھا تو دوسری طرف سے ہمارے خلاف نعرے لگنا شروع ہو گئے اور پھر یہ نعرے بازی پر تشدد شکل اختیار کر گئی میں نے پنجابی کے ایک دانش ور کو مارنے کیلئے ایک کرسی اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ مجھ سے اٹھائی نہ گئی کہ اس پر کوئی بیٹھا ہوا تھا اس ہنگامے کے اگلے روز انتظار حسین نے اس پر کرارا کالم لکھا۔بی بی سی نے اس کی پوری روداد بیان کی بعد میں تمام اخبارات میں بھی ہماری حمایت میں خبریں اور کالم ،شائع ہوئے جسکے نتیجے میں حلقہ کے سیکرٹری شہزاد احمد نے پریس کانفرنس کی اور حلقے میں کی گئی تقریروں کی مذمت کی۔میری زندگی میں یہ اس نوع کا پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ میں بہت ’’اتھرا‘‘ نوجوان تھا۔کوئی حرج نہیں اگر آخر میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اب کسی سے ہاتھا پائی کا پنگا نہیں لے سکتا کہ جانتا ہوں اس کا انجام کیا ہو گا مگرمختلف تحریکوں کے دوران میرا قلم جارحانہ انداز اختیار کئے بغیر نہیں رہ سکتا میرے دوست مجھے سمجھاتے رہتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ جواباً میں انہیں سمجھانے بیٹھ جاتا ہوں!