وقت بدلتے دیر نہیں لگتی کون جانتا تھا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ بنگلہ دیش کا دورہ کرینگے ،ان کا استقبال وہاں ہو گا جہاں بنگلہ بندھو کا مجسمہ گرایا جا چکا ہے،ایک وقت کی طاقتورترین ان کی بیٹی جان اور شاید مال بچانے کیلئے بھارت میں پناہ لے لیں گی۔ پاکستان سے تاجروں کا وفد بھی ساتھ گیا ہے ممکن ہے کہ صحافی اور اہل قلم بھی ساتھ ہوں اور اگر ہماری وزارت خارجہ میں کچھ لوگوں نے مشورہ دیا ہو ڈھاکہ یونیورسٹی سے معاشیات اور میڈیاا سٹڈیز میں ماسٹرز کرنے والے طارق محمود،اظہارالحق اور فاطمہ حسن کو بھی ساتھ لے لیں۔طارق محمود تواس سرزمین سے متعلق ’’اللہ میگھ دے‘‘ کے بعداب ایک اور سوانحی ناول خون کے دھبے (دھلیں گے ،کتنی برساتوں کے بعد) لکھ رہے ہیں،جس شاعر کا یہ مصرع اردو میں ہے تب اس فیض احمد فیض سے وہاں کےبہت سے لوگ واقف تھے اسی لئے مشکل ترین دنوں میں ذوالفقارعلی بھٹو انہیں ساتھ لے کر گئے تھے کیونکہ ایسا شاعر بہت سے ناراض لوگوں کے دلوں پر دستک دے سکتا ہے ارے یہ تو وہ ہے جسے ہماری طرح غدار کہہ کے جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور ہمارے بنگلہ بندھو کے مہا گروحسین شہید سہروردی ان لوگوں کے سامنے وکیل صفائی بن کر جاتے تھے جو اپنی طرف سے طے کئے بیٹھے تھے کہ ایک شاعر کی پھانسی سے کوئی آٖفت نہیں آ جائیگی۔ ہماری وزارت خارجہ کے افسر ممکن ہے کہ جانتے ہوں ڈھاکہ میں ایک بلبل اکیڈمی بھی تھی جو موسیقی اور رقص کے پروگرام ملتان کے ایم سی سی گرائونڈ میں ہم جیسے اسکول کے بچوں کے سامنے پیش کرتی تھی۔اسی ملتان میں بزم ثقافت تھی جس نے نذرالاسلام سمیت کئی ادیبوں شاعروں کو بھی بلایا تھا اور مجھے اپنے جیسے کسی بھولے بھالے بچے کا سوال بھی یاد ہے جس نے نذرالاسلام سے پوچھا تھا ’’آج ادب کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے‘‘؟ اور انہوں نے کہا ’’کاغذ کی مہنگائی‘‘ تب ہم معاشرتی علوم میں پڑھا کرتے تھے کہ کرنافلی میں کاغذ بنانے کا بہت بڑا کارخانہ ہے،اس لئے اس جواب کو افسانوی سمجھ کے ہنس پڑے تھے۔ تب مسعود اشعر امروز ملتان کے مدیر تھے جنہوں نے قومی تاریخ کے مشکل دنوں میں ملتان کی ایک محفل میں افسانہ پڑھا تھا ’’بیلا نائی رے‘‘خلیج بنگال میں ایک مانجھی گا رہا تھا بیلا نائی رے جولدی جولدی۔ وقت نہیں ہے جلدی کرو جلدی یہ افسانہ مسعود اشعر کے پہلے افسانوی مجموعے’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ میں شامل ہے۔یہ سب باتیں اس لئے یاد آرہی ہیں کہ کل ہی ایک ایڈووکیٹ سید بدر گیلانی نے ملتان کے صف اول کے وکیل چوہدری پرویز آفتاب مرحوم کے بارے میں بتایا جو راجشاہی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے پائی ، انہوں نے خواجہ غلام فرید کی منتخب کافیوں کا بنگالی زبان میں ترجمہ کیاہے۔ اسلم انصاری مرحوم نے بھی اس ترجمے کا ذکر کیا تھا۔بے شک آج کچھ لوگ کہیں کہ توسیع شدہ میکانکی ذہانت کے روبروایسے ترجمے کی کیا اہمیت ہے؟مگر ترجمے میں سرائیکی اور بنگالی زبانوں کی غنائیت اورمٹھاس کااحساس باقی رکھنا ابھی مشینی مترجم کی بات نہیں،اگر ہمارے وزیر خارجہ بنگلہ دیش کے دورے میں غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کی راشدہ قاضی کو بھی ساتھ لے جاتے تو وہاں کسی ادبی تقریب میں بنگالیوں کو خواجہ غلام فرید کے پیغام اورلحن سے یوں مانوس کرتیں کہ شاید وہاں سے کوئی ادبی وفد پاکستان آ کے ملتان اور ڈیرہ غازی خان بھی چلا جاتا۔
٭٭٭٭
امریکہ کے بارے میں بہت سے سفرنامے لکھے گئے پھر ہمارے اردو کے ایک استاد ظہور انور ندیم وہاں ہیں،انہی کے پاس ہر دم متکلم مبشرزیدی کی معلومات سے بھری پوسٹیں آتی ہیں ہماری شاگرد مدثرہ حسین وائس آف امریکہ سے وابستہ ہوئیں تو ہم انہیں سنتے رہے انکے بعض مباحثوں میں شریک بھی رہے مگر اب صدر ٹرمپ ان سب پر بازی لے گئے ہیں ان کی ہر تقریرکچھ قیاس آرائیوں کو ختم کرتی ہے تو نئی کو جنم دیتی ہے،ایسے میں ڈیرہ غازی خان کے پروفیسر حماد خان کے سرائیکی سفرنامے" بلوچ کا حال" کا ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے جو عمران میر نے پڑھنے کو دیا ایک تو یہ با تصویر ہے سرائیکی بھی ایسی جس کے سارے لفظ سمجھ میں آتے ہیں اور ان کی جگتیں بھی،شاید ہی کوئی اور سفرنامہ نگار ایسا ہو جس نے اپنی مقبولیت کے غلط اندازے کا اعتراف ایک صوبائی الیکشن ہارنے کے ساتھ کیا ہو اور پھر اپنے صاحب حیثیت والد کا جو زمینیں بیچتے رہے کہ بیٹا نیویارک جا کر کسی یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم پائے۔ اس سفرنامے میں حماد صاحب نے پاکستانیوں کو ایک راستہ دکھایا ہے کہ نعت خواں،ذاکر اہل بیت یاکسی بھی مسلک کےمقرر بن کر آ جایئے، ہر گلی اور کوچے میں مسجدیں اور مدارس ہیں اور لفافہ بردار عقیدت ایسے لوگوں کی زیارت کو ترس رہی ہے۔بے شک حافظ شیراز کا یہ شعر کوچہ و بازار میں صدیوں سے سنائی دیتا رہا ہے
واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند… چوں بخلوت می روند آں کار دیگر می کنند
پروفیسرحماد نے کار دیگر کے بارے میں بھی دلچسپ اشارے کئے ہیں۔
٭٭٭٭
اخبارات میں گلگت کے تین چرواہوں کاذکر ہے جنہوں نے ایک گائوں کے لوگوں کوتباہی سے بچایا اور حکومت نے انہیں دس ہزار روپے کی خطیر رقم دی ہے شاید فی کس مگر انہیں پہلے ثابت کرنا ہوگا کہ ان میں سے گائوں کا اصل محسن کون ہے؟
دوسری طرف بھارت کی آبی جارحیت کے بارے میں ایک سیالکوٹی نے لکھا ہے فالتو پانی چھوڑتے ہوئے وہ ہمیں پہلے سے آگاہ نہیں کرتے مگر وہ نہیں جانتے کہ انکی اس جارحیت سے دریائے راوی اور دریائے ستلج کے سوکھے لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔