ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے ہم انیس سو سینتالیس کی چودہ اگست کے بعد کراچی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بات چیت جاری رکھتے ہیں۔ پچھلی مرتبہ ہم نے کراچی کا قصہ آدھے میں چھوڑ دیا تھا۔ سلسلہ وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے منقطع ہوا تھا۔کیماڑی کو جدید بندرگاہ بنانے کے جنون نے انگریز کو اعلیٰ شہر کراچی کی بنیاد ڈالنے پر آمادہ کیا تھا۔ اگست انیس سو سینتالیس کو جب انگریز نے کوچ کیا تھا، وہ اپنے پیچھے لندن، بمبئی اور سورت کی ٹکر کا شہر کراچی چھوڑ گئے تھے۔ کیماڑی، میری ویدر ٹاور اور بولٹن مارکیٹ سے بندر روڈ ایکسٹینشن تک جانے والے روڈ کو انگریز نے نام دیا تھا بندر روڈ، کیماڑی بندر سے شروع ہونے والا روڈ بہت بڑا، چوڑا چکلا ہوتا تھا۔ روڈ کے دونوں اطراف وسیع و عریض پیدل چلنے والوں کیلئے فٹ پاتھ بنے ہوئے تھے۔ فٹ پاتھ پر بیس پچیس فٹ کے فاصلےپر گھنے درخت لگے ہوئے تھے، نیم، پیپل، برگد اور لال بادام کے درخت۔ درختوں کے نیچے لوہے اور لکڑی سے بنے ہوئے خوب صورت بینچ مستقل طور پر فٹ پاتھ کے ساتھ پیوست ہوتے تھے۔ بچے، خواتین اور عمر رسیدہ لوگ بنچوں پر بیٹھے ہوئے اور سستاتے ہوئے دیکھے جاسکتے تھے۔ سنا تھا کہ بینچ انگلستان کے شہر برمنگھم سے بن کر آئے تھے۔
چودہ اگست انیس سو سینتالیس کے بعد کراچی میں سب سے پہلے دکھائی دینے والی تبدیلیوں میں سرفرست تھیں بندر روڈ سے منسلک فٹ پاتھ سےبینچوں کا غائب ہوجانا،گم کرنےوالوں نے اکھاڑ کر بینچ غائب کردیے تھے۔ چودہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے کراچی کے تمام روڈ راستوں پر کھلے عام گائیں چلتی، پھرتی اور مزے سے بیٹھی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ لفظ گائیں جمع ہے گائے کی۔ کراچی کے ہم پرانے باسی ایک گائے کو گائے اور ایک سے زیادہ گائے کو گائیں اور کچھ لوگ گائیاں کہتے تھے۔ گائے پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ پورے شہر کے گلی، کوچوں، سڑکوں اور روڈ راستوں پر دندناتی پھرتی تھیں۔ اگر بیچ سڑک بیٹھ جائیں تو ٹریفک کو رخ بدلنا پڑتا تھا مگر گائے کو اپنی جگہ دل جمعی سے بیٹھنے دیا جاتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چودہ اگست انیس سو سینتالیس کے بعد کراچی کی سڑکوں سے گائے غائب ہونے لگیں۔ کچھ عرصہ بعد ہم کراچی والوں نے پھر کبھی کراچی کی سڑکوں پر گائے کو دندناتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ بھی ایک بہت بڑی تبدیلی تھی جو چودہ اگست انیس سو سینتالیس کے بعد کراچی میں ہم نے دیکھی۔بندر روڈ کے بیچوں بیچ ٹرام چلا کرتی تھی۔ کراچی کے پورے شہر میں ٹرام کی پٹریاں بچھی ہوئی تھیں۔ بولٹن مارکیٹ، کیماڑی، نیپئر روڈ، چاکیواڑہ، کراچی کینٹ اسٹیشن، صدر، گاندھی گارڈن وغیرہ ٹرام کی وجہ سے آپس میں ملے ہوئے تھے۔ آپ ایک آنے میں پورے شہر کا چکر لگاکر آسکتے تھے۔ اس قدر صاف ستھری اور محفوظ سواری کا آپ تصور نہیں کرسکتے۔ پورے یورپ کے شہروں میں ٹرام کا رواج تھا اور اب بھی ہے۔ پچیس تیس برس ٹرام کراچی میں چلتی رہی مگر کبھی ایک اندوہناک حادثے کی خبر سنائی نہیں دی مگر تبدیلی پسند بابوئوں نے سڑک کے بیچوں بیچ چلنے کی وجہ سے ٹرام کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ کسی نے مخالفت نہیں کی۔ کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ پورے شہر سے ٹرام کی پٹریاں اکھاڑ کر ردی میں بیچ دی گئیں اور چالیس پچاس ٹراموں کے کل پرزے نکال کر بیچے گئے۔ اس طرح کراچی کا شہر اپنی ایک لاجواب پہچان سے محروم کردیا گیا۔ یہ بھی ایک بہت بڑی تبدیلی تھی، بری سہی۔کراچی کے تمام روڈ راستوں پر جانوروں کے پانی پینے کیلئے حوض بنے ہوئے تھے۔ کراچی کی مقبول عام سواری دو پہیوںوالے تانگے اور چار پہیوں والی وکٹوریا گاڑیاں ہوتی تھیں۔ گھوڑوں کے علاوہ ہر طرح کے جانور حوض سے پانی پیتے تھے۔ اکثر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ پانی پینے اور ڈبکیاں لگانے حوض پر اتر آتے تھے۔ تبدیلی پسند یاروں نے پانی کے حوض اس قدر بے دردی سے اکھاڑے کہ لاکھ تلاش کرنے کے باوجود آپ کو کراچی کے کسی کونے کھدرے میں پانی پینے کے حوض کا سراغ تک نہیں ملے گا۔ تب بہت کچھ کھو دیا تھا کراچی نے۔چودہ اگست انیس سو سینتالیس کے بعد پہلی تبدیلی حیران کن تھی۔ کراچی کے اکثر بڑے روڈ راستے تھوڑے سے خمدار Curvature ہوتے تھے۔ چھ، سات مہینے کراچی ابر آلود ہوتا تھا اور اکثر بوندا باندی ہوتی رہتی تھی، کیا مجال کہ پانی کے ایک قطرے کیلئے سڑک پر ٹھہرنے کی جگہ ہو۔ راستے یورپ کے راستوں کی طرح کرویچر ہوتے تھے۔ ہلکی گولائی ہوتی تھی، راستوں کی بناوٹ میں۔ گرنے کے فوراً بعد پانی راستے کی دونوں جانب ہوجاتا تھا۔ راستے کی دونوں جانب فٹ پاتھ کیساتھ بڑی جالی والے بڑے گٹر ہوتے تھے۔ سنا تھا کہ لوہے کے ڈھکن بھی برمنگھم سے بن کر آئے تھے۔ چودہ اگست انیس سو سینتالیس کے بعد سب سے پہلے سڑکوں سے گٹروں پر رکھے ہوئے لوہے کے ڈھکن غائب ہونا شروع ہوگئے تھے۔
کراچی کی ناقابل فراموش عمارتوں کے بارے میں بات ہوگی اگلے منگل کے روز۔