• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یاسین ملک ایک بیٹی کا باپ بننے پر بہت خوش تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کا نام رضیہ سلطانہ رکھا۔ اس نام نے یاسین ملک کی بیٹی کو جنوبی ایشیا کی تاریخ کے ساتھ جوڑ دیا۔ رضیہ سلطانہ جنوبی ایشیا کی پہلی خاتون حکمران تھیں جنہوں نے چار سال تک دہلی پر حکومت کی۔ وہ سلطان شمس الدین التمش کی بیٹی تھیں۔ اسکی اصل طاقت عوامی حمایت تھی لیکن وہ سازشوں کا نشانہ بن گئی۔ تاریخ میں اسکا نام آج بھی زندہ ہے۔ یاسین ملک نے اپنی بیٹی کا نام رضیہ سلطانہ رکھا تو اسے کیا معلوم تھا کہ اسکی بیٹی صرف 13سال کی عمر میں اپنے باپ کے ساتھ ناانصافی کیخلاف جدوجہد کا آغاز کر دئیگی۔26 اگست کو اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے زیر اہتمام ’’یاسین ملک بچاؤ کانفرنس‘‘ میں 13سالہ رضیہ سلطانہ نے ایک مختصر تقریر میں اپنے والد کی رہائی کا مطالبہ کیا تو میں سوچ رہا تھا کہ دہلی کی تہاڑ جیل میں قید یاسین ملک کی آواز دبانےکا خواب چکنا چور ہو چکا۔ یاسین ملک کو ایک جھوٹے اور خود ساختہ مقدمے میں ایک بھارتی عدالت نے 2022ء میں عمر قید کی سزا دی۔ بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے دہلی ہائی کورٹ میں درخواست دائرکی کہ یاسین ملک کو سزائے موت دی جائے۔ یاسین ملک عدالت میں وکیل کے ذریعے اپنے دفاع سے انکار کر چکے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ ایک جھوٹے مقدمے میں انہیں سزائے موت دینی ہے تو دیدی جائے۔ عدالت نے اس مقدمےکی اگلی سماعت 10 نومبر 2025ء مقرر کی ہے۔ بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعتیں یاسین ملک کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں کیونکہ مئی2025ء میں چار روزہ پاک بھارت جنگ میں میں شکست کے بعد بھارتی حکومت کسی نہ کسی طرح اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کرنا چاہتی ہے۔ اپنے ہی عوام کی نظروں میں گری ہوئی مودی سرکار کشمیری حریت پسند یاسین ملک کو تختہ دار پر لٹکا کر اپنے عوام کی نظروں میں سرخرو ہونا چاہتی ہے۔ یاسین ملک کو پھانسی پر چڑھانے کی اس خواہش کیخلاف جے کے ایل ایف نےیاسین ملک بچاؤ کانفرنس کا انعقاد کیا۔طویل عرصے کے بعد آزادکشمیر اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے رہنما اکٹھے نظر آئے اور سب نے متفقہ طور پر یاسین ملک سمیت بھارتی جیلوں میں قید تمام کشمیریوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اس کانفرنس میں آزاد کشمیر اسمبلی کے اسپیکر چودھری لطیف اکبر، آزاد کشمیرکے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان، راجہ فاروق حیدر، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں سمیت آل پارٹیز حریت کانفرنس کے اہم قائدین شریک تھے۔ جے کے ایل ایف کے تمام اہم دھڑے بھی ایک میز پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ انسانی حقوق کی ممتاز کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ اور انیس جیلانی ایڈووکیٹ کے علاوہ صحافتی تنظیموں کے نمائندے افضل بٹ بھی موجود تھے۔ کانفرنس کے منتظم رفیق ڈار اپنے قائد یاسین ملک کی رہائی کیلئے دی جانے والی تجاویز کو نوٹ کرتے جا رہے تھے۔ سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کو یاسین ملک کیساتھ ہونیوالی ناانصافی کیخلاف عالمی فورمز پر آواز بلند کرنی چاہئے اور یہ خیال بھی رکھنا چاہئے کہ جب ہم عالمی فورمز پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے ظلم اور ناانصافی کیخلاف آواز بلند کرتے ہیں تو وہاں پر ہماری طرف بھی انگلی اٹھا دی جاتی ہے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ہمیں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں وہ کچھ نہیں کرنا چاہئے جس کے خلاف ہم مقبوضہ کشمیر میں آواز اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ یاسین ملک کی رہائی کیلئے یورپ، امریکا اور برطانیہ میں پھیلے ہوئے کشمیریوں کے ذریعے ان ممالک کے ارکان پارلیمنٹ سے رابطہ کیا جائے اور انہیں یاسین ملک کی زندگی کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا جائے۔ عبد الرشید ترابی کی تجویز تھی کہ آزاد کشمیر حکومت اس سلسلے میں ایک وفد تشکیل دے جسکی سربراہی یاسین ملک کی اہلیہ کریں اور یہ وفد بیرون ملک جا کر اپنا پیغام دے تاہم ایک اور تجویز یہ تھی کہ اس وفد کی سربراہی رضیہ سلطانہ کو سونپی جائے۔ اس کانفرنس میں اتفاق رائے سے اعلان کیا گیا کہ 12ستمبر کو مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر میں یاسین ملک سمیت تمام کشمیری اسیران کی رہائی کیلئے ہڑتال کی جائیگی اور احتجاجی مظاہرے کیے جائینگے۔ اس موقع پر میں نے تجویز دی کہ یاسین ملک کیلئے پاکستان سے باہر ہی نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے خصوصی اجلاس بلا کر دنیا کو بتایا جائے کہ یاسین ملک سمیت شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، مسرت عالم بھٹ اور کئی دیگر کشمیری رہنما دہائیوں سے بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ آسیہ اندرابی کے خاوند ڈاکٹر قاسم فاکتو کی قید کو 30 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ ان پر اسی نوعیت کے الزامات ہیں جو ایک زمانے میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت نے نیلسن منڈیلا پر لگائے تھے۔ نیلسن منڈیلا نے 27سال جیل میں گزار کر امن کا نوبل انعام حاصل کر لیا جبکہ کئی کشمیری قائدین منڈیلا کا ریکارڈ توڑ کر بھی دنیا کی نظروں میں نہیں آ رہے۔ میں نے یہ تجویز بھی دی کہ دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ یاسین ملک کون ہے اور بھارتی حکومت اُسے پھانسی پر کیوں لٹکانا چاہتی ہے؟ اقوام متحدہ کے رکن تمام ممالک کی حکومتوں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو خطوط کے ذریعے بتایا جائے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے جہاں آزادی کی تحریک 1931ء سے چل رہی ہے۔ یاسین ملک کو 1987ء کے ریاستی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا اور رہائی کے بعد انہوں نے بھارت سے آزادی کیلئے عسکریت کا راستہ اختیار کیا۔ 1994ء میں انہوں نے سیز فائر کر دیا اور پرامن جدوجہد شروع کی۔ وہ بار بار گرفتار ہوتے رہے لیکن اپنے موقف سے نہیں ہٹے۔ 2006ء میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے وزیر اعظم آفس میں اُن سے ملاقات کی۔ ایک اور وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے حکم پر انہیں پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا جس پر سفر کر کے وہ پاکستان آئے۔ کم از کم سات بھارتی وزرائے اعظم یاسین ملک کو بات چیت کے ذریعہ آزادی کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے رہے اور انہیں عمر عبداللّٰہ کی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر کا وزیراعلیٰ بننے کی پیشکش کرتے رہے۔ انہوں نے بار بار اس سودے سے انکار کیا۔ اگر وہ دہشت گرد تھے تو بھارتی وزیراعظم واجپائی نے انہیں پاسپورٹ کیوں جاری کیا؟ یاسین ملک کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے اپنی قوم کی آزادی کیلئے بزرگ کشمیری لیڈر سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کے ساتھ اتحاد کیا اور بھارتی حکومت کے ساتھ سودے بازی سے انکار کیا۔ آج نریندر مودی کی حکومت انہیں تختہ دار پر لٹکا کر چند مخصوص سیاسی مقاصد کا حصول چاہتی ہے جو ویسی ہی غلطی ہو گی جیسی غلطی اندرا گاندھی نے 1984ء میں مقبول بٹ کو پھانسی دے کر کی تھی۔ پھانسیاں آزادی کی تحریکوں کو روکتی نہیں مزید آگے بڑھاتی ہیں۔ 1984ء میں جنرل ضیاء کی حکومت نے شہید مقبول بٹ کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ آج 2025 ء میں 13 سالہ رضیہ سلطانہ اپنے والد یاسین ملک کو پھانسی سے بچانے کیلئے پوری دنیا کو پکار رہی ہے۔ ہم سب کو رضیہ سلطانہ کی آواز بننا ہے۔خدانخواستہ یاسین ملک کو پھانسی ہو گئی تو یہ ایک فرد کی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں امن کی پھانسی ہو گی۔

تازہ ترین