پاکستان کی تاریخ کھنگالیں تو ایک بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہاں حکمران بدلتے ہیں، نظام بدلنے کی باتیں ہوتی ہیں، روٹی ،کپڑا اور مکان جیسے نعرے ، منشور آتے ہیں مگر عام آدمی کی قسمت ہمیشہ کی طرح کچھ یوں باسی رہتی ہے جیسے حجام کی دکان پر لٹکا ہوا کیلنڈر ، جو برسوں سے تبدیل نہیں ہوتا مگر حجام کی قینچی مسلسل چلتی رہتی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عام آدمی ہر صبح نئے خوابوں کیساتھ جاگتا ہے اور ہر شام پچھتاوے کی چادر اُوڑھ کر سو جاتا ہے۔ اس ملک کے حکمران عوام کو خوش نما اشتہاروں میں سہانے خواب لپیٹ کر خالی ڈبہ پکڑا دیتے ہیں۔ 75سال سے یہاں نت نئے نعروں سے حکمرانوں کی اچکنیں، وردیاں تبدیل ہوتی رہی ہیں مگر بدلتی نہیں تو صرف عام آدمی کی تقدیر۔ کہنے کو تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن یہاں اجناس اُگانے والا کسان خود بھوکا مرتا ہے۔ اس کی فصل کی بوائی والا بیج، کھاد، پانی حکومتی پالیسیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس ملک کے مزدور اینٹوں کے بھٹے پر دن رات ہاتھ کالے اورآنکھیں سرخ کرتے ہیں مگر ان کا پیٹ پھر بھی خالی رہتا ہے۔ کیا میرے پیارے قائد نے یہ ملک صرف چند خاندانوں اور اشرافیہ کیلئے بنایا تھا؟ ہر گز نہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ یہاں دو الگ الگ مخلوقات آباد ہیں۔ ایک کی دنیا وہ ہے جہاں طاقت ور سیاست دان، بزنس ٹائیکون، اشرافیہ کے بچے پلتے بڑھتے اور دنیاپر راج کرتے ہیں۔ دوسری دنیا وہ ہے جہاں غریب صبح سے شام تک مزدوری کرتا ہے، اپنا خون پسینہ بہاتا، پیٹرول، بجلی ، گیس کی قیمتوں، اپنے بچوں کی اسکول فیسوں کا حساب کتاب کرتا دم توڑ جاتا ہے۔ یہ ملک امیروں کی جنت اور غریبوں کیلئےمسلسل آزمائش ہے۔ اس کی گلیوں، کوچوں، بازاروں میں اردگرد چہروں پر غور کریں تو ایک ہی تصویر آنکھوں کے سامنے باربار آتی ہے۔ یہ تصویر ہے غریب آدمی کی، جس پر مایوسی کی پرچھائیاں، تھکن کی لکیریں اور امید کی بجائے مایوسی کی دھند چھائی نظر آتی ہے۔ یہ چہرہ دہائیوں سے ایک سا کیوں ہے؟ اس چہرے پر مسکراہٹ کیوں نہیںآتی؟
کیا یہ زمین اور اس کے وسائل صرف اشرافیہ کیلئےمختص ہیں یا یہ ملک چند خاندانوں کے کھیل کا میدان ہے جہاں عوام صرف تماشائی کا کردار نبھا رہے ہیں۔ کبھی نیا پاکستان بنانے کی نوید سنائی جاتی ہے اور کبھی ترقی کے سفر کے وہی پُرانے گھسے پٹے قصے کہانیاں دہرائی جاتی ہیں لیکن انجام ایک سا ہی نکلتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے مال بنا کر نکل جاتے ہیں اور عوام صرف ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ ہر حکومت وعدوں کی برسات کرتی ہے مگر غریب کی زمین پر وہ بارش کبھی نہیں برستی۔ سیلاب آئے یا زلزلہ، اشرافیہ کیلئے بہار ہی بہار ہے اور غریب کیلئے تباہی کی داستان۔ کچے مکان زمین بوس ہو جاتے ہیں، چھتیں گرجاتی ہیں، جھونپڑیاں پانی میں بہہ جاتی ہیں گلیاں ندی نالے بن جاتی ہیں۔ اسکول جاتے بچے ملبے تلے دب کر دم توڑ دیتے ہیں، وہ کسان جس نے قرض لے کر محنت سے فصل اُگائی تھی ایک ہی رات میںاس کے کھیت پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ سوگ کے انہی ایام میں راشن ، ٹینٹ ، ڈیزل مافیاز کمال مہارت سے حرکت میں آتے ہیں۔ راشن گوداموں میں بند کرکے ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے۔ امدادی ٹینٹ بازاروں میں بلیک میں بکنے لگتے ہیں۔ پیٹرول ، ڈیزل کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ خدانخواستہ زلزلہ آئے تو یہ منظر اور بھی درد ناک ہوجاتا ہے، پورا ملک آنسو بہاتا ہے۔ دنیا بھر سے امداد آتی ہے۔
ہم ہاتھ جوڑ جوڑ کر عالمی اداروں سےامداد مانگتے ہیں، بیرون ملک پاکستانی دل کھول کر عطیات بھیجتے ہیں۔ آخر وہ امدادجاتی کہاں ہے؟ دریاؤں کی زمینوں پر کچھ ہوٹل اور ہاؤسنگ سوسائٹیاںبن جاتی ہیں۔ کچھ افسران کے ڈرائنگ روم سج جاتے ہیں، وزراءکی جیبیں وزنی ہونے لگتی ہیں مگر جن کے مکانات گر جاتے ہیں، جن کے بچے ملبے تلے دفن ہوجاتے ہیں وہ خیموں میں بیٹھے اپنی تقدیرکا ماتم کرتے دکھائی دیتےہیں۔ قدرتی آفات بیرونی دنیا میں آزمائش، پاکستان میں اشرافیہ و مافیاز کیلئے انعام بن جاتی ہیں کہ آفت زدہ ماحول میں مہنگائی کا طوفان برپا کیا جاتا ہے۔عوام لمبی قطاروں میں لگ کر راشن کیلئے ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ یقیناًیہ ملک چند خاندانوں کے رحم وکرم پر چل رہا ہے۔مراعات یافتہ طبقہ اتنا طاقت ور ہے کہ کوئی حکومت انکے سامنے کھڑی نہیں ہوسکتی۔ پاکستان میں عام آدمی کی تقدیر اس لئے نہیں بدلتی کہ یہاں کسی کا نظام تبدیل کرنے کاکوئی ارادہ نہیں ۔
یہاں قدرتی آفات ریلیف کی بجائے لوٹ مار کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ غریب کو کنگال اور مافیاز کو خوش حال کردیتی ہیں۔ دولت مندوں کیلئے سہولت اور غریبوںکیلئے عبرت کی یہی کہانی ہے۔ پاکستان کا عام آدمی کسی ایسی بس کا مسافر لگتا ہے جس کا ڈرائیور سو رہا ہے، گاڑی مسلسل گہری کھائی کی طرف لڑھکتی جارہی ہے اور ڈرائیور کو اس کی کوئی خبرنہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان کے غریب آدمی کی تقدیر کیوں نہیں بدلتی؟ کیا یہ زمین بانجھ ہے؟ بالکل نہیں، کیا اس کے پاس محنتی و جفاکش لوگ نہیں؟ ایسا بھی نہیں۔ پھر صرف اشرافیہ ہی کیوں پھلتی پھولتی ہے اور غریب عوام روٹی کے ایک نوالے کو کیوں ترستے ہیں؟ المیہ یہ ہے کہ جب آسمان سے بارش برستی ہے، دریاؤں کا پانی بپھرتا ہے تو اس میں غریب کے خواب بہہ جاتے ہیں۔ کچی بستیاں، جھونپڑیاں، کسان کی کھڑی فصلیں، ٹپکتی چھتیںسب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہی بارش ، سیلاب، قدرتی آفات، اجارہ داروں کیلئے تجوریاں بھرنے کے نئے راستے بھی کھول دیتی ہے۔ اس ملک کا بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ غربت، مہنگائی، کرپشن کی کہانی ہر دور میں ایک جیسی رہتی ہے پھر ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ آخر غریب آدمی کی تقدیر کیوں نہیں بدلتی؟