• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہم باتیں کریں گے کراچی کی۔ مگر کراچی کی باتیں کرنے سے پہلے ہم ایک حیرت انگیز قصّےکا ذکر کریں گے۔ یہ قصّہ اسقدر پُراسرار ہے کہ کچھ لوگ اس واقعہ کو قبول کرنے سے انکار کردیتےہیں۔ جو لوگ اس حیرت انگیز واقعہ کی کہانی کو سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ آخرِکار غیبی رازوں کی بھول بھلیوں میں کھوجاتے ہیں۔ چھتیس برس گزرجانے کے باوجود کہانی کا حتمی انجام کسی کی سمجھ میں نہیں آیا ہے۔ چھتیس برسوں سے اقتدار میں آنے اور اقتدار سے جانے والی حکومتوں نے اس معاملے پر خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ کوئی نہیں جانتا کہ پچیس اگست انیس سو نواسی کے روز گلگت سے اسلام آباد روانہ ہونے والی پی آئی اے کی فلائٹ چار سو چار PK-404 کہاں  غائب ہوگئی۔ فلائٹ میں عملے کے ارکان کو ملاکر پچپن افراد سوار تھے۔ جہاز اس کے بعد کبھی بھی اسلام آباد نہیں پہنچا۔ دنیا بھر کے کھوجی اسلام آباد پہنچے۔ جدید سائنسی آلات کی مدد سے جہاز کی کھوج لگائی۔ پہاڑوں کی بلندیوں  سے لیکر وادیوں تک ماہر سراغ رسانوں نے تلاش کیا۔ جہاز کے ملبے کا نام ونشان کسی کو دکھائی نہیں دیا۔ لگتا تھا۔ پی آئی اے کی فلائٹ چار سو چار گلگت سے اسلام آباد جانے کیلئے کبھی چلی ہی نہیں تھی۔ مگر پی آئی اے کی دفتری کارروائی دکھاتی ہے کہ جہاز پچپن مسافروں کو لیکر گلگت سے اسلام آباد جانے کیلئے روانہ ہوا تھا۔ مسافروں کے بورڈنگ کارڈوں سے لےکر، ان کے سیٹ نمبرز کا ریکارڈ پی آئی اے کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ جہاز اپنے شیڈول کے مطابق روانہ ہوا تھا۔ مگر اسلام آباد نہیں پہنچا۔ کہیں بھی نہیں پہنچا۔ گلگت سے روانہ ہونے کے بعد پھر کبھی کسی نے پی آئی اے کی فلائٹ چار سو چار نہیں دیکھی۔

کچھ غیر معمولی دن اور ان کی تاریخیں مجھے کبھی نہیں بھولتیں۔ میرے شعور اور لاشعور کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ان تاریخوں پر ہونے والے واقعات اور حادثوں کے بارے میں، میں لاشعوری طور پر سوچتا رہتاہوں۔ برمودا ٹرائی اینگل ہم سے ہزاروں میل دور، میامی فلوریڈا کے قریب ہے۔ بتاتے ہیں کہ برمودا تکون میں آج تک سیکڑوں پانی کے جہاز اور ہوائی جہاز غائب ہوچکے ہیں۔ کبھی نہیں سُنا کہ بلیک ہول زمینی چیزوں کو نگل لیتا ہے۔ انسان بیچارا ازل سے بے بس پیدا ہوتا ہےاور بے بسی کے عالم میں دنیا چھوڑ جاتا ہے۔ سائنس، سائنسدان اور انکی ٹیکنالوجی عالم غیب کے آگے بے بس ہوتے ہیں۔

کراچی بذات خود ایک پراسرار شہر ہے۔ یہاں آنے اور کچھ عرصہ رہنے کےبعد آپ واپس نہیں جاتے۔ آپ اس شہر کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اگست انیس سو سینتالیس میں یہاں سے جانے کے بعد انگریز اپنے پیچھے دیدہزیب اور دلفریب عمارتیں چھوڑگئے تھے۔ بے انتہا خوبصورت بلڈنگیں صرف انگریز نے نہیں بنائی تھیں۔

بے شمار بلڈنگوں میں کئی لاجواب عمارتیں ہندو اور پارسیوں نے بھی بنائی تھیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کی عالیشان عمارتیں انگریز کے عہد کی بنی ہوئی بلڈنگیں ہیں۔ ان بلڈنگوں کا ذکر دو چار کالموں میں  نہیں ہوسکتا۔ ایک ایک عمارت اپنے دور کی ترجمان ہے۔ کہتے ہیں کہ دراصل خوبصورتی ہماری اپنی آنکھوں میں ہوتی ہے۔اگر دس لوگوں کوکہا جائے کہ وہ کراچی کی خوبصورت عمارتوں کی فہرست بنائیں، جواباً آپ کو دیکھنے کے لئےدس مختلف فہرستیں ملیں گی۔ اگر لوگوں سے پوچھا جائے کہ کراچی میں سب سے اچھی بلڈنگ آپ کو کونسی لگتی ہے، آپ کو مختلف جواب ملیں گے۔ کوئی کہے گا کہ کراچی میں سب سے اچھی اور دیدہ زیب عمارت موہٹہ پیلس ہے ۔دوسرے کسی شخص کی فہرست میں کراچی مونسپل کارپوریشن کراچی سب سے خوبصورت عمارت ہے۔ کسی کی فہرست میں صف اول کی عالیشان عمارت ہندو جمخانہ ہوگی۔ کسی اور کی ترجیحات میں کراچی کی سب سے خوبصورت عمارت ڈی جے سائنس کالج کی عمارت ہے۔ برطانوی دور کی دیدہ زیب عمارتیں کراچی میں پھیلی ہوئی ہیں۔

مجھے سب سے اچھی بلڈنگ کراچی میوزیم کی لگتی ہے؛ حیرت انگیز طور پر ایک گنبد والی عالیشان عمارت آج بھی اپنی اصل شان وشوکت سے موجود ہے۔ مگر مجھ جیسے کھڑوس بڈھوں کے علاوہ شاید ہی کسی کے علم میں ہو کہ موجودہ دور میں کراچی سپریم کورٹ کی ذیلی عدالت کراچی کے قدیم اصلی میوزیم کی عمارت میں لگتی ہے۔ مجھے یہ دلکش بلڈنگ اس لیے بھی اچھی لگتی ہےکہ بچپن میں والدین جب بھی شہر کی سیر کرنے نکلتے تھے۔ ہم بچوں کو کراچی میوزیم ضرور لے جاتے تھے۔ بچپن کے بعد لڑکپن میں ہم بچے خود میوزیم پہنچ جاتے تھے۔ آپ جیسے ہی میوزیم میں داخل ہوتے تھے تب سب سے پہلے آپ کی نگاہ بے انتہا بڑی وہیل مچھلی کے ڈھانچے پر پڑتی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ تقسیم ہند کے بعد وہیل مچھلی کا ڈھانچہ اور بے شمار تاریخی نوادر کہاں گئے۔ روز اول سے تیز طرار قبضہ گروپ بہت چالاک اور پھرتیلا رہا ہے۔ وہ آپ کو پتہ بھی لگنے نہیں دیں گے اور آپ کے گھر پر قبضہ کرلیں گے۔ بٹوار ے کے بعد کراچی میوزیم کی عمارت میں کئی دفتر کھول کر بابو بٹھائے گئے۔ انہوں نے دل کھول کر میوزیم کا ستیاناس کیا۔ سپریم کورٹ کی ذیلی عدالت بننے کے بعدوہ خوبصورت عمارت پھر سے نکھر کر دکھائی دی ہے۔

برطانوی دور کی عمارتوں پر نگاہ ڈالنے کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ 1887ء اٹھارہ سوستاسی میں بنی ہوئی کراچی پورٹ ٹرسٹ کی عمارت کراچی کی سب سے اعلیٰ، دیدہ زیب اور عظیم الشان عمارت ہے۔

تازہ ترین