ابھی سیلاب کی تباہ کاریوں کا ماتم جار ی تھا کہ بلوچستان میں ایک اور خود کش حملے میں 15افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہو گئے جو ایک جلسے میں شریک تھے۔ جبکہ ممتاز سیاست دان اختر مینگل ، محمود اچکزئی اور ان کے دیگر ساتھی بال بال بچ گئے۔ اسی طرح کے پی میں بھی آئے روز خود کش حملے ہو رہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق ماہِ اگست میں ان خود کش حملوں کی تعداد اچانک بڑھ گئی ہے۔ یعنی مئی میں ہونیوالے پاک بھارت تصادم کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں خوف ناک حد تک اضافہ ہو ا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان دھماکوں کے پیچھے بھارتی حکومت کا ہاتھ ہے کیونکہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی پاک بھارت تصادم میں شکست کھانے کے بعد اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک شرمندگی، تضحیک اور جگ ہنسائی کا نشانہ بن رہا ہے جبکہ ریاست بہار کے الیکشن سر پر ہیں اور ہر روز بھارتی اپوزیشن مودی پر طنز کے نشتر چلا رہی ہے کہ 56 انچ کی چھاتی والا امریکہ کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے بعد اب شنگھائی تعاون تنظیم کے سر براہی اجلاس میں چینی صدر کے سامنے سرنگوں ہو رہا ہے جس نے نہ صرف 2020 میں لدّاخ میں ایک سرحدی جھڑپ کے دوران 20 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کرکے بھارتی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا بلکہ حالیہ پاک بھارت فوجی جھڑپ میں کُھل کر پاکستان کی امداد کی ۔ اس ساری صورتِ حال کے پیشِ نظر اپنی خفّت مٹانے اور بھارتی عوام میں اپنے گرتے ہوئے امیج کو بچانے کیلئے ہمیشہ کی طرح وہ پاکستان کے خلاف جارحیت پر اتر ا ہوا ہے۔ بلوچستان اور کے پی میں حالیہ دہشت گرد حملے اس سلسلے کی کڑی ہیں۔ لیکن یہ ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب پنجاب اور سندھ تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کررہے ہیں۔ اس سیلاب میں بھی بھارتی آبی جارحیت شامل ہے ۔ جس نے دریائے راوی، چناب اور جہلم میں اپنا اضافی پانی چھوڑ دیا ہے جس نے پاکستان کے وسیع رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے کر لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو نہ صرف تباہ کر دیا ہے بلکہ بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دی ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب پہاڑوں پر برف جمنے سے پانی کی کمی ہو جاتی ہے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت اس وقت کیا کرے گا؟ گویا ہماری زندگی بھارتی رویے کے رحم و کرم پر ہے۔ ہم ایسا ملک ہیں جس کے تقسیم کے وقت دو حصّے تھے جو ایک دوسرے سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر تھے اور درمیان میں بھارت کا علاقہ تھا جس پر سے گزر کر ہمیں ایک دوسرے حصّے میں جانا پڑتا تھا۔ جب مشرقی پاکستان میں سیاسی بحران عروج پر تھا ۔ تو بھارت نے پاکستان پر اپنی فضائی حدود بند کردیں۔ جسکے نتیجے میں دونوں حصّے ایک دوسرے سے کٹ گئے۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری افواج وہاں محصور ہو کر رہ گئیں اور مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ۔ لیکن مغربی پاکستان یا موجودہ پاکستان میں بھی صورتِ حال کبھی ہمارے حق میں نہیں رہی کیونکہ یہاں کے بھی سارے دریا ہندوستانی علاقے سے آتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے نے راوی، بیاس اور جہلم جیسے دریا ہم سے چھین لیے۔ لیکن بھارت اس معاہدے سے بھی انکار ی ہے اور وہ پاکستان کو سندھ اور چناب کے پانی سے بھی محروم کرنا چاہتا ہے۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ پاکستان میں حقیقی عوامی لیڈر شپ تیار کی جاتی جو صرف منصفانہ جمہوری عمل کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ کیونکہ اسے جیو پولیٹکل اہمیت کے حامل ایسے ملک کو چلانا تھا ، جس کا محلّ ِ وقوع انتہائی اہم تھا اور تقسیم کے بعد جہاں مسلمان پہلے دو اور پھر تین حصّوں میں تقسیم ہو چکے تھے جبکہ پہلے سے تقسیم شدہ ہندو ایک ملک یعنی بھارت میں اکٹھے کر دئیے گئے تھے ۔لیکن ہمارے سیاسی بصیرت سے محروم ڈکٹیٹروں نے اپنے نت نئے سیاسی تجربوں سے نہ صرف حقیقی عوامی لیڈر شپ کو ابھرنے نہ دیا بلکہ پاکستان کو محض اپنے عارضی اقتدار کی خاطر عالمی طاقتوں کا مہرہ بنا کر انکی بالا دستی کی جنگ کو ہمارے عوام کے سروں پر تھوپ دیا۔ جسے وہ ابھی تک دہشت گردی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ 45سال سے سامراج کی شروع کی ہوئی افغان جنگ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے جس کا براہِ راست ایندھن ابھی تک ہم بن رہے ہیں۔
اے وطن تجھ کو کس کی نظر لگ گئی
اے وطن ، اے وطن ، سرزمینِ عدن
کیا ہوا تیرے میدانوں ، کہساروں کو
لوٹ لی کس نے تیرے چمن کی بہار
کس نے ویراں کیا تیرے بازاروں کو
ہر طرف آج اپنوں کا خوں بہہ رہا
ہر طرف آگ ہے، ہر طرف ہے دھواں
آج بھائی ہی بھائی کا قاتل بنا
زندگی موت کے نرغے میں ہے یہاں
اے وطن تجھ کو کس کی نظر لگ گئی
گود کو تیری کس نے ویراں کر دیا
تیری آغوش ، ممتا کی آغوش ہے
کس نے جنّت کی چھائوں میں خوں بھر دیا
اے وطن تیری حرمت کی ہم کو قسم
دشمنوں کو ترے یوں مٹائیں گے ہم
تیرا امن و سکوں تجھ کو لوٹائیں گے
تجھ کو جنّت کا ٹکڑا بنائیں گے ہم