• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیجنگ کی فضاؤں میں جنگی طیاروں کی گھن گرج، بغیر پائلٹ ہیلی کاپٹروں کی فارمیشن، توپوں کی دھمک اور ہزاروں فوجیوں کے قدموں کی یکساں چاپ کے ساتھ مغرب بالخصوص امریکہ کے لئے یہ پیغام صاف سنائی دے رہا ہے کہ دنیا ایک نئے دوراہے پر آکھڑی ہوئی ہے اور ایک نیا بیانیہ (نیو ورلڈ آرڈر) اس کا منتظر ہے۔ چین نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے80 سال مکمل ہونے پر جو یوم فتح منایا ہے وہ محض ایک یادگاری تقریب ہرگز نہیں تھی بلکہ مستقبل کا ایک ٹھوس پیغام تھا۔

تیان من اسکوائر میں یہ پریڈ اتنی شاندار تھی کہ دیکھنے والے کے ذہن میں ایک ہی سوال ابھرتا ہے کیا یہ پریڈ ہتھیاروں کی نمائش تھی یا عالمی پیغامات پہنچانے کا ایک بہترین ذریعہ۔کیونکہ ہر میزائل، ہر ڈرون، ہر فارمیشن مغرب کو ایک واضح پیغام دے رہی تھی کہ اب دنیا کی نئی سپر پاور امریکہ نہیں چین ہے۔ جب صدر شی جن پنگ بیجنگ کے اسٹیج سے یہ کہہ رہے تھے کہ ”چینی عوام تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہیں اور دھونس دھمکی سے خوف زدہ ہونے والے نہیں۔“ تو یہ تاریخی جملے صرف چینی عوام کے لئے نہیں تھے بلکہ مغرب کے ایوانوں میں دھماکہ دار گونج بن کر گرے۔ تقریب کا سب سے نمایاں پہلو عالمی قیادت کی شرکت تھا۔ روسی صدر پیوٹن ،شمالی کوریا کے کم جونگ ان اور وزیراعظم شہباز شریف، بھارت کے نریندرمودی سمیت 25 ممالک کے سربراہان کی شرکت، یہ منظر مغرب کے لئے دنیا میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلی کی ایک علامتی تصویر قرار دیا جاسکتا ہے کہ اب ایک طرف امریکہ، نیٹو اور یورپی اتحاد تو دوسری طرف مشرق، یوریشیا کا ابھرتا ہوا بلاک، مغرب کے اسٹرٹیجک تجزیہ کاروں نے یقیناً اس منظر کو اپنی نوٹ بکس میں بڑی احتیاط سے درج کیا ہوگا۔ بیجنگ میں ستر منٹ طویل طاقت کے اس مظاہرے کے اختتام پر 80 ہزار امن کی فاختائیں بھی فضامیں اُڑائیں گئیں جیسے یہ بتایا جارہا ہو کہ ہمارے ہتھیار صرف جنگ کے لئے نہیں بلکہ امن کی ضمانت بھی ہیں۔ عموماً دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جب کوئی ملک امن کی فاختائیں اڑانے کی کوشش کرتا ہے تو مغرب کو ان میں بھی ”اسٹرٹیجک خطرہ “دکھائی دیکھنے لگتا ہے۔

صدر شی جن پنگ کا اپنے تاریخی خطاب میں یہ کہنا کہ ” انسانیت اس وقت امن یا جنگ، مکالمے یا محاذ آرائی، باہمی مفادات یا یک طرفہ مفاد کے درمیان انتخاب کے موڑ پر کھڑی ہے۔ چینی ایک عظیم قوم ہیں جو کبھی کسی دھونس دھمکی سے خوف زدہ ہوئی نہ ہوگی۔“ یہ پیغام براہ راست واشنگٹن اور برسلز کے دروازے پر دستک دے رہا ہے کہ ہمیں دبانے کی کوشش نہ کرنا ، اب ہم کمزور نہیں رہے۔ پس منظر میں دنیا کو جو پیغام دیا گیا ہے دراصل یہ مستقبل کا ایک مکمل سیاسی اسکرپٹ ہے۔ روسی صدر کی اس موقع پر موجودگی نے واضح کر دیا کہ چین روس اتحاد محض دکھاوا نہیں۔ شمالی کوریا کے سربراہ کی شرکت سے بھی یہ ظاہر ہوگیا کہ ایشیائی بلاک میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جنہیں مغرب اپنا اثاثہ نہیں سمجھتا تھا۔ یا یوں کہہ لیجئے جنہیں وہ ”اسٹرٹیجک آؤٹ کاسٹ“ سمجھتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی نمایاں شرکت، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بیجنگ میں موجودگی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو واضح طور پر نظر انداز کیا جانا خطے میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کے ایسے اشارے ہیں کہ جیسے مودی آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے نظر آرہے ہوں۔

اب وہ امریکہ کے رہے نہ ہی چین کے۔ موصوف صرف ایک دن کے لئے تشریف لائے، ایس سی او کانفرنس میں منہ دکھائی کروائی ۔ پیوٹن کا ہاتھ زور زبردستی سے پکڑ کر اور چینی صدر سے چند سیکنڈ کی قہقہے لگانے کی ایکٹنگ والی ملاقات بھی ان کے کسی کام نہ آئی اور خالی ہاتھ نئی دہلی لوٹ گئے۔ پاکستان معرکہ حق میں فتح، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ٹرمپ سے ملاقات کے بعد ایک طرف مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی ہر ممکن کوششیں کررہا ہے تو دوسری طرف چین کے سب سے بڑے اتحادی و شراکت دار کے طور پربھی دیکھا جارہا ہے۔ سی پیک جیسا فلیگ شپ منصوبہ اس دوستی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ بیجنگ پریڈ میں پاکستانی قیادت کی موجودگی ، اسلام آباد کے جھکاؤ کی واضح جھلک کے ساتھ ساتھ خطے میں اس کی بڑھتی اہمیت اور کردار کو بہت نمایاں کررہی ہے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان واقعی اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے گا اور دو بڑے فریقین کے درمیان تناؤ کم کرنے میں کوئی کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

اس بارے طویل مکالمے کی گنجائش موجود ہے کہ بیجنگ کی پریڈ صرف عسکری طاقت کا مظاہرہ نہیں تھی بلکہ ایک نظریئے اور سوچ کا اعلان تھا۔ صدر شی جن پنگ نے واضح کر دیا ہے کہ دنیا کو جنگل کے قانون کی طرف واپس نہیں جانا چاہئے جہاں ایک طاقت ور شخص (ٹرمپ کی طرف اشارہ) کمزور کا شکار کرتا رہے۔ چین روس کا مشترکہ مو قف یہی ہے کہ مغرب دنیا کو اپنی مرضی کے قوانین کے تحت چلارہا ہے اور یورپی اتحاد کو امن اور باہمی ترقی کے نعروں سے سجا کر پیش کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب کی اپنی پالیسیوں نے ہی اس اتحاد کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے۔ یوکرائن کے مقابلے میں روس پر بڑھتا امریکی دباؤ، تائیوان کے مسئلے پر چین کو اشتعال دلانا اور عالمی اداروں میں اپنی مرضی چلانا یہ سب عوامل مشرقی ممالک کو ایک دوسرے کے بہت قریب لارہے ہیں اور مغرب خود سے اپنے لئے مشکلات پیدا کررہا ہے۔

یہ پریڈ ایک نئے عالمی اتحاد اور نیو ورلڈ آرڈر کی تقریب رونمائی تھی۔ جس سے چین کے صدر شی جن پنگ ایک مضبوط اور مدّبر عالمی رہنما کے طور پر ابھر کرسامنے آئے ہیں۔ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ بیجنگ کے پیغامات واشنگٹن میں سنجیدگی سے سنے اور پڑھے جائیں گے اورمستقبل میں جنگ یا امن کے انتخاب بارے کوئی ٹھوس حکمت عملی مرتب کی جاسکے گی۔ اگر بیجنگ کے پیغامات کا گہرائی سے مشاہدہ کیا جائے تو امریکی صدر ٹرمپ امن کی خواہش کو حقیقت کا روپ دے کر عالمی سیاست کا رُخ بدل سکتے ہیں کیونکہ دنیا اب جنگیں نہیں امن، ترقی و خوش حالی چاہتی ہے یہی بیجنگ سے پیغام آیا ہے۔

تازہ ترین