ہر طرف کنفیوژن ہے ویژن کہیں نظر نہیں آرہا۔ اپوزیشن بھی کنفیوژڈ حکومت بھی کنفیوژڈ اور عوام بھی کنفیوژڈ۔ اپوزیشن بند گلی میں جاتی جا رہی ہے امید اور کامیابی کے آپشنز ایک ایک کر کے بند ہو رہے ہیں اب صرف انہونی یا کوئی معجزہ ہی اس کی امیدوں کا واحد سہارا ہے۔ دوسری طرف حکومت کو معاشی استحکام ملا۔ بھارت سے جنگ میں کامیابی کے بعد عوامی سہارا بھی ملا۔ مگر کنفیوژن ابھی تک برقرار ہے پی ٹی آئی اور اس کے بانی کا مستقبل ہو یا پھر نونی بیانیے کے ذریعے کھوئی ہوئی مقبولیت کوواپس لینے کا گر، دونوں ایشوز پر گہری دھند اور دھواں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے اس دو طرفہ کنفیوژن سے عوامی سطح پر بھی کنفیوژن ہے۔
حکومت اور مقتدرہ کے حامی تاجر اور صنعتکار تیز تر معاشی تبدیلیوں کی توقع کرتے ہیں مگر فی الحال اس کے آثار نظر نہیں آتے۔ اس لئےیہ لابی حکومت کو مختلف تجاویز اور مشورے دے رہی ہے کوئی ایکسپورٹ بڑھانے کی تجویز دے رہا ہے تو کوئی ٹیکسوں کے نظام میں مکمل اصلاح کی بات کر رہا ہے، کوئی ملک میں فرقہ بندی کے مکمل خاتمے کیلئے سخت ترین ضابطے رائج کرنے کو بہتری کا راستہ سمجھتا ہے، اسی طرح حکومت کے لبرل حامی یہ تصور کرتے ہیں کہ مذہبی سخت گیری ختم کر کے 1979 ء سے پہلے جیسا معتدل اور متوازن ماحول قائم کیا جائے، دوسری طرف حکومت کے حامی مذہبی حلقے ملک کو مزید اسلامی رنگ دینے اور غزہ کے مسلمانوں کی عملی مدد نعرے کرنےکےلگا رہے ہیں،ایک بزنس مین نے تو چڑ کر یہ بھی کہا کہ فوج اقتدار سنبھالے تو معیشت بہتر ہو جائے گی زیادہ تر اسی ہائبرڈ نظام کو چلانے کی حمایت کرتے ہیں مگر کئی اس سیاسی نظام کو ملک اور مقتدرہ کیلئے ناجائز بوجھ سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں اس بوجھ کو اتار کر ملک بہتر طور پر چل سکتا ہے۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی زبانیں۔ مکمل کنفیوژن ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن کا حال حکومت سے بھی بُرا ہے مقتدرہسے لڑائی ہے، عدلیہ سے کوئی مدد مل نہیں رہی۔ عوامی حمایت کے باوجود عوام احتجاج کے لئے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ پارٹی مکمل طور پر انتشار کا شکار ہے ساری کی ساری قیادت بداعتمادی کا شکار ہے کوئی ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ پارٹی کی قیادت اپنوں ہی کے حملوں سے بے اثر اور بے عزت ہو چکی ہے علیمہ خان روز بروز طاقت پکڑ رہی ہیں مگر عمران کے لئے بشری بی بی کی اہمیت اپنی بہنوں سے کہیں زیادہ ہے اور سب کو علم ہے کہ بشریٰ بی بی اور علیمہ خانم کی آپس میں بنتی ہی نہیں۔ غرضیکہ اندھیرے غارمیں دور دور تک چراغ کی روشنی بھی نظر نہیں آرہی۔ مکمل کنفیوژن ہے۔
عوامی سطح پر بھی کنفیوژن ہے کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اگلے چھ ماہ یا سال، کے بعد کی سیاست اور معیشت کیا ہوگی؟ ہر طرف افواہیں ہیں یوٹیوبرزان افواہوں کو بڑی منصوبہ بندی سے تقویت دیتے ہیں ایک ایشو غلط ثابت ہوتا ہے تو دوسرا اس سے بھی بڑا ایشو بنا کر جھوٹی امیدیں کھڑی کردیتے ہیں ۔عوامی حوصلہ و برداشت بھی اتنا زیادہ ہے کہ افواہوں اور ایشوز کے بار بار جھوٹا ہونے کے باوجود انسانی جبلت کے تحت عوام ایک نئی افواہ اور نئی جھوٹی امید کے پیچھے پھر سے بھاگ پڑتے ہیں غرضیکہ اس طرف بھی مکمل کنفیوژن ہے۔
کنفیوژن کو صرف اور صرف ویژن سے دور کیا جا سکتا ہے طاقتور اور عملی بیانیے، قابل عمل نعروں، خوش نما اور برآتی ہوئی امیدوں سے ہی کنفیوژن سے نکلا جاسکتا ہے۔ مغربی سیاسی نظام ہو یا تعلیمی نظام اس میں ہر بات یقینی ہوتی ہے۔ غیر یقینی واقعات و حالات سے بچنے کا ایک طریق کار وضع ہوتا ہے۔ امریکہ میں انتخابات کے لئے نومبر کا مہینہ پہلا منگل وار طے ہے۔ تعلیمی نظام کا کیلنڈر پہلے سے جاری ہوتا ہے چھٹیاں کب ہوں گی اور امتحانات کب؟ سب کچھ پہلے طے ہوجاتا ہے اور پھر اُس سے سرِمُو انحراف نہیں کیا جاتا۔ اس طریق کار کو مستقبل کا ویژن کہتے ہیں ایسے ویژن کی موجودگی میں کنفیوژن پیدا ہونے کا دور دور تک امکان ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ملک کو آگے چلانے کیلئے مستقبل کا ٹھوس لائحہ عمل طے ہونا اشد ضروری ہے گوہر اعجاز کی سربراہی میں تھنک ٹینک نے اس حوالے سے ایک تحقیق کی ہوئی ہے۔ معیشت کو چلانے کیلئے تاجروں اور صنعتکاروں سے بہتر کوئی ممدو معاون نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح سابق نگراں صوبائی وزیر ابراہیم حسن مراد نے بھی مستقبل کے پلان پر کام کیا ہے۔کراچی کے صنعت کار بھی مختلف تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار اور وفاقی وزیر خزانہ اورنگ زیب بھی زیرک اور تجربہ کار ہیں ۔صنعت کاروں اور وزارت خزانہ کے باہم مشورے اور مقتدرہ کی سرپرستی میں ایک ٹھوس ماڈل سامنے آنا چاہئے تاکہ سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے کنفیوژن دور ہو۔
دنیا بھر کی مثالیں سامنے رکھ لیں نظام بادشاہی ہو، آمرانہ یا جمہوری ہو واضح ویژن کے بغیر کوئیقوم یا ملک ترقی نہیں کرسکتے۔ کل کاسنگاپور ہو یا آج کا سعودی عرب سب نے ترقی اور استحکام کا ایک بیانیہ بنایا پوری قوم کو اس کا یقین دلایا۔ اپنی قوم اور اپنے ملک کی فالٹ لائنزکو پوری طرح بھرا۔ سنگاپور ملائیشیا کا حصّہ تھا اور انتہائی پسماندہ تھا وہاںچینی نژاد سنگاپورین اور مسلم نژاد سنگاپورین کے علاوہ مختلف اقوام آباد تھیں، قوانین وضع کر کے ان پر عملدرآمد یقینی بنایا گیا آج بھی ایشیا میں ملٹی نیشنل کمپنیوںکے سب سے زیادہ دفاتر سنگاپورمیں ہیں۔ سنگاپور میں ہر شادی شدہجوڑے کو حکومت نیا گھر فراہم کرتی ہے یہ گھر ایسی بلڈنگ میں ہوتے ہیں جس میں ضرورت کا سارا سامان مہیا ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں سخت گیر مذہبی نظام تھا لیکن پرنس محمد بن سلیمان نے ترقی اور جدیدیت کا بیانیہ دیکر سب مخالفتوں کو بے اثر کر دیا ہے۔
اب بھی ضرورت ہے کہ سیاسی مخالفوں اور میڈیا کو دبانے کی بجائے قومی فالٹ لائنز چاہے وُہ مذہبی ہوں یا سیاسی، تجارتی ہوں یا سرکاری ان کو کسی رعایت کے بغیر دور کیا جائے ۔ جمہوری ممالک میں دہشت گردی، فنانسنگ ٹیرازم یا غیر قانونی امیگریشن پر جس طرح کی یکسوئی آرہی ہے ،ہم بھی اپنی ترجیحات میں حائل رکارٹوں کے بارے میں ہم آہنگی کا ویژن دے کر اس پر عمل کروائیں۔ ویژن پاپولر ہوگا تو کنفیوژن دور ہوگا کنفیوژن ختم ہوگا تو مایوسی کے بادل چھٹیں گے مایوسی جائے گی تو امیداور خوشحالی کا راستہ کھلتا چلا جائے گا۔