• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ خطہ ہمیشہ سے سلطنتوں، خوابوں اور بغاوتوں کی آماجگاہ رہا ہے۔ یہاں تخت بھی کمزور رہے اور تختہ بھی۔ تاریخ کے ہر صفحے پر ایک نیا قصہ رقم ہوا، اور ہر قصے نے اپنے پیچھے وہ نشان چھوڑے جو آج بھی ہمارے لیے سوالیہ نشان ہیں ۔برصغیر اور اس کے گرد و نواح کی ریاستیں تاریخ میں بار بار ایسے لمحوں سے گزری ہیں جب طاقتور تخت ہل گئے، بڑے بڑے ایوان اجڑ گئے اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھےطاقتورحکمران لمحوں میں ریت کی مانند بکھر گئے۔ کل تک جو حکمران ناقابلِ شکست نظر آتے تھے وہ ایک دن عوامی غضب، غربت کے طوفان یا عالمی سیاست کی تیز ہواؤں کے سامنے بے بس ہو کر میدان چھوڑ گئے۔ افغانستان کے اشرف غنی ہوں یا بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ، سری لنکا کے راجاپکشے ہوں یا نیپال کے وزرائے اعظم، سب کی داستان ایک ہی سبق دیتی ہے کہ اقتدار کے سنگھاسن کی بنیادیں اگر عوامی اعتماد سے خالی ہو جائیں تو پھر اس کے زوال کو کوئی فوج، کوئی خفیہ ایجنسی، کوئی معاہدہ اور کوئی بیرونی پشت پناہی نہیں روک سکتی۔

یہ کہانیاں محض تاریخ کے ورق نہیں، ہمارے حال کے آئینے بھی ہیں۔ پاکستان آج جس دوراہے پر کھڑا ہے وہاں یہ سوال شدت اختیار کر گیا ہے کہ کیا ہم بھی اس خطے کی ان ریاستوں کی طرح کسی بڑے طوفان کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو آگ ہم اپنے ہمسایوں کے گھروں میں جلتی دیکھتے ہیں، وہ ایک دن ہمارے دروازے پر بھی دستک دے گی؟

افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جب امریکی افواج نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو اشرف غنی، جو برسوں تک عالمی طاقتوں کی گود میں بیٹھے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے، پلک جھپکتے ہی ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اقتدار کا ایوان خالی رہ گیا اور عوام ایک بار پھر بدامنی کے گرداب میں پھنس گئے۔ یہ منظر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر حکومت عوامی تائید سے محروم ہو جائے تو عالمی طاقتوں کی مدد بھی اس کو نہیں بچا سکتی۔ بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ، جو برسوں تک اقتدار میں رہیں، جب عوامی غصہ بڑھا اور سیاسی مخالفت کی آگ پھیلی تو ان کے ہیلی کاپٹر کے پر بھی لرز گئے۔ وہ لمحہ پورے خطےکیلئے ایک انتباہ تھا کہ طاقت کا زعم محض واہمہ ہے۔ سری لنکا میں مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی قلت نے راجاپکشے خاندان کو زمیں بوس کر دیا۔ عوام ایوانِ صدر میں گھس آئے، اور وہ مناظر دنیا نے براہِ راست دیکھے کہ کس طرح طاقتور عوامی غصے کے سامنے بے بس ہو گئے۔

نیپال میں وزیر اعظم کو عوامی لاٹھیوں اور پتھروں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر عوام کے غصے کا شکار ہوئے۔ یہ مناظر محض تصویریں نہیں، یہ مستقبل کے سائے ہیں جو پاکستان پر بھی پڑ سکتے ہیں اگر ہم نے اپنی سمت درست نہ کی۔

پاکستان اس وقت اپنے داخلی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ بے روزگاری اپنی انتہا پر ہے۔ افراطِ زر نے متوسط طبقے کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اس قوم کو ایک ایسے دائرے میں گھما رہا ہے جس کا کوئی سرا نظر نہیں آتا۔ اگر ان حالات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو تاریخ کی وہی تکرار ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

یہ سوال محض سیاسی نہیں بلکہ فلسفیانہ بھی ہے۔ سقراط نے کہا تھا کہ ریاست کی بنیاد انصاف پر ہے۔ اگر انصاف غائب ہو جائے تو ریاست کھوکھلا ڈھانچہ بن جاتی ہے۔ پاکستان میں انصاف کا معیار کیا ہے؟ غریب اپنی زمین بیچ دے، اپنا خون بیچ دے، اپنی عزت بیچ دے، تب بھی اسے انصاف نہ ملے، لیکن طاقتور کیلئے قانون بدل جائے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ریاست کا ڈھانچہ لرزنے لگتا ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تاریخ میں زوال کبھی اچانک نہیں آیا۔ یہ ایک خاموش طاعون کی طرح بڑھتا ہے۔ اشرف غنی کا بھاگ جانا ایک دن کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ برسوں کے بگاڑ کا نتیجہ تھا۔ حسینہ واجد کا فرار ایک حادثہ نہیں بلکہ عوامی غصے کی منطقی شکل تھی۔ راجاپکشے خاندان کا انجام مہنگائی اور کرپشن کی دہائیوں پر محیط پالیسیوں کا پھل تھا۔ نیپالی وزیراعظم پر ہونے والا حملہ عوامی صبر کے لبریز ہونے کی علامت تھا۔

پاکستان کیلئے یہ تمام مثالیں آئینہ ہیں۔ ہم روز دیکھتے ہیں کہ مہنگائی نے کیسے ایک مزدور کی کمر توڑ دی ہے۔ ہم روز دیکھتے ہیں کہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں ایک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ ہم روز دیکھتے ہیں کہ سیاستدان اپنی انا کے کھیل کھیل رہے ہیں جبکہ عوام نان ِجوئیں کیلئے ترس رہے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب سوال اٹھتا ہے کہ اگر عوام کے زخم مزید گہرے ہو گئے تو کیا یہ ملک کسی طوفان کی لپیٹ میں تونہیں آجائے گا؟

تاریخ ہمیں چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ طاقت کی بنیاد عوام کا اعتماد ہے۔ اگر عوام بھوکے رہیں گے، اگر ان کے بچوں کو تعلیم نہ ملے گی، اگر ان کی محنت کا پھل کرپٹ اشرافیہ کھا جائیگی تو پھر یہ عوام ایک دن اٹھ کھڑے ہوں گے۔ وہ ایوانوں میں گھس جائیں گے، تخت الٹ دیں گے، اور وہی منظر پاکستان کی گلیوں میں بھی نظر آ سکتا ہے جو ہم نے کابل، ڈھاکہ، کولمبو اور کھٹمنڈو میں دیکھا۔

یہ کالم کسی مایوسی کی دعوت نہیں بلکہ ایک وارننگ ہے۔ وقت ابھی باقی ہے۔ پاکستان کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ اپنے راستے کو درست کرے۔ ہمیں انصاف کو یقینی بنانا ہوگا، معیشت کو عوام دوست بنانا ہوگا، سیاست کو انا سے نکال کر خدمت کی ڈگر پر ڈالنا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر عوام کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ ریاست ان کی ہے، یہ چند خاندانوں کی جاگیر نہیں۔

اگر ہم نے یہ سبق نہ سیکھا توخاکم بہ دہن تاریخ ہمیں بھی اسی فہرست میں شامل کر دئیگی جس میں اشرف غنی، حسینہ واجد، راجاپکشے اور نیپال کے حکمرانوں کے نام لکھے ہیں۔ اور اگر ہم نے یہ سبق سیکھ لیا تویقیناً ہم اپنے بچوں کیلئے ایک ایسا پاکستان بناسکتے ہیں جو زوال کی بجائے بقا اور ترقی کا نمونہ ہو ۔

تازہ ترین