پاکستان میں پانی کا مسئلہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ویسے ہی چلا آ رہا ہے تاہم اب یہ معاملہ بڑا سنگین ہوگیا ہے۔ بھارت سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں نئے نئے ڈیم بنائے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں تربیلا اور منگلا کے بعد کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا جا سکا البتہ ہر دور میں ایک ایک منصو بےکےکئی بار افتتاح بھی ہوئے مگر عملی طور پر ملکی آبادی بڑھنے کے ساتھ پانی کا مسئلہ بھی سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ موجو دہ سیلاب کی تباہ کاری کے باعث جو تباہی اور بربادی ہو رہی ہے اس کیلئے سابقہ قومی اخبار مشرق کےفیچر رائٹر ریاض بٹالوی نے 1977-78ء کے سیلاب کے دنوں میں لکھاتھا کہ آن کی آن میں نہ مکان رہے نہ مکین اب پورا پاکستان اسکی عملی تصویر نظر آرہا ہے۔ ایسے حالات میں بہتر یہ نہیںکہ 1960 کی دہائی سے تکنیکی طور پر فوری قابل عمل منصوبہ کالاباغ ڈیم پر سیاسی پارٹیاں اور حکومتیں سیاست کرنے کی بجائے قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کریں اور وڈیرا شاہی کے منفی پروپیگنڈا کی نفی کریں اس وقت آسٹریلیا میں بھی پانی کے بے پناہ ذخائر ہیں اور ایک ایک قطرہ بچا یاجارہا ہے اس سے آبادی اور زراعت دونوں کو فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں سیلاب کی تباہی کے چند ہفتوں کے بعد لائیو اسٹاک سیکٹر اور سبزیوں پھلوں اور اجناس کی قلت کا ایک اور بحران سر پہ کھڑا ہے حکمران اور سب سیاستدان قوم پر رحم کریں اس وقت شو مئی قسمت سے امریکہ یورپی بلاک اور عالمی بینک سمیت تمام ادارے پاکستان پر بڑے مہربان ہیں فوری طور پر امریکہ سے سونے اور تانبے وغیرہ کی کھدائی اوربزنس کے معاہدے کرنے کے ساتھ ساتھ کالا باغ ڈیم کے لیے فنڈز کےحصول کی بات شروع کرنی چاہئے۔ اس کےلیے ایس آئی ایف سی کو ٹاسک دیا جائے جس پر عالمی اداروں اور مختلف حکومتوں کو اعتماد اور تسلی بھی ہے SIFC اپنے مینڈیٹ میں ایسے منصوبے شامل کرے۔ SIFCمیں ساری قوتیں موجود ہیں،اسلئے سب مل کر کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کریں یہ بحث نہ کریں کہ اس ڈیم کو اتنے سال لگیں گے اب بھی تو 72/70 سال اس پر ضائع ہو گئے ہیں ۔ماضی میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے سیاسی مفاہمت کے نام پر اس منصوبے سے پہلو تہی کی اس وقت ایس آئی ایف سی قومی کانفرنس بلائے کالا باغ ڈیم ایشو پر سب سیاسی جماعتوں کو اکھٹا کریں اور نگ برنگی سلائیڈ سے بریفنگ کی بجائے عوامی انداز میں منصوبے کے صرف مثبت پہلوئوں پر بات کی جائے۔
ایک زمانے میں کالا باغ ڈیم سے سستی ہائیڈرل پاور چند پیسے فی یونٹ کی لاگت سے مل سکتی تھی اب وہ چند روپے ہو سکتی ہے لیکن 1996کے بعد سے آئی پی پی کے تباہ کن معاہدوں سے تو بہرحال امتیازی طور پر قابل عمل منصوبہ ہے ۔اس منصوبے پر ابتدائی دنوں میں پختونخوا سے اے این پی اس کی مخالف تھی اور شور ڈالا جاتا تھا کہ اس سے نوشہرہ ڈوب جائے گا پھر پیپلز پارٹی نے سندھ کی سیاست میں اپنا ووٹ بینک پکا رکھنے کے لئے اس کی مخالفت کی، سمندر میں ماہی گیری کی صنعت کے نقصانات سے لنک کیا حالانکہ ان دنوں عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں سالانہ 30لاکھ کیوسک پانی سمندر میں چلا جاتا ہے پھر مسلم لیگ ( ن) کی حکومت نےسندھ اسمبلی میں کے بی ڈی کے خلاف قراداد کی حمایت بھی کی ۔
اس وقت واپڈا کے سینئر ماہرین نے ہر سطح پر کالا باغ ڈیم منصوبے کے لئے کوششیں کی لیکن ساری قوتوں نے کالاباغ ڈیم پر اتفاق نہ ہونےدیا۔
اس وقت دیکھیں تو سند ھ ، پختونخوا، بلوچستان ، پنجاب سب ڈوب رہے ہیں اور ہمیں ذرا سا بھی احساس نہیں ہو رہا ہے۔ مجھے یاد ہے جنرل پرویز مشرف کے دور میں بڑے مثبت انداز میں کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے کے لئے کا م کا آغاز ہو ا تھا اس سلسلےمیں مقتدرہ نے کافی کوشش کی تھی پھر ایک وقت ایسا آیا کہ صدر مشرف اور انکی حکومت کی توجہ اس قومی مسئلے سے ہٹا دی گئی اور انہیں سیاست کی جانب راغب کرنے کی حکمت عملی شروع ہو گئی ۔اس کے بعد سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا ۔اب پاکستان کو اللہ پاک نے ایک اور موقع دیا ہے کہ سیاسی حکومتیں اور ایس آئی ایف سی کے حکام مل کر اس قومی منصوبے کا آغاز کریں ۔اگر سیاسی قوتوں کو کالا باغ ڈیم کے نام پر اتفاق نہیں تو اس کا نام پاکستان ڈیم رکھا جا سکتا ہے جس پر بیس پچیس سال پہلے میاں نواز شریف ، مجید نظامی کے ہاں ناشتے کی میز پر اتفاق کر چکے تھے پھر مسلم لیگ ن نے سند ھ سے ووٹ لینے کے لئے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی۔
افسوس صد افسوس اب کی بار سیلاب کے پانی نے دریائے راوی تک رسائی حاصل کرنے پر پیغام دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں لاہور کی بھی خیر نہیں اس بارے میں مزید کسی تحقیق کے بغیر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے اس لئے امریکی ادارے اور ماہرین کو اچھی ڈیل کے تحت اس کی لمبی مدت کے لئے رائلٹی دینی پڑے تو دے دی جائے تاکہ یہ بہانہ نہ بنایا جا سکے کہ پاکستان کے پاس وافر وسائل نہیں ہیں۔ بات اب وسائل کی نہیں قومی سطح پر احساس پیدا کرنے اور جذبہ اجاگرکرنے کی ہے ۔اس لئے سب قدم بڑھائیں اور ایک سفید پرچم کالا باغ ڈیم کے منصوبے پر بھی لگائیں جیسے ہماری بہادر افواج نے حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھارتی علاقہ پر لگایا۔ یہاں بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر عملا بھارت کو بدترین شکست دینے کے برابر ہے اس لئے ہم سب کو ایک پیج پر ہونا چاہئے ۔یہ ہم سب کا پاکستان ہے اور یہ ہماری پہچان ہے۔