• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ اجلاس وقت کے معمولی وقفے کی مانند نہیں ہوتے بلکہ وہ آنے والے زمانوں کے لئے سنگ میل ثابت ہوتے ہیں۔ جیسے کسی صحرا میں اچانک بارش ہو جائے اور زمین کے ہر ذرے پر تروتازگی کی مہک چھا جائے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا حالیہ اجلاس بھی ایسا ہی تھا یہ ملاقاتیں اور لیڈرشپ کے عہد وپیمان سفارت کی میز پر نہیں گویا تاریخ کے صفحات پر درج ہوئے۔یہ اجلاس ایسے لمحے میں برپا ہوا جب دنیا کی پیشانی پر بارود کی لکیر کھینچی جا چکی ہے۔ ایک زوال پذیر سامراج ہے جو اپنی تھکی ہوئی طاقت کو زندہ رکھنے کے لئے ہر سمت جنگ کے شعلے بھڑکاتا ہے۔ غزہ کے جلتے ہوئے مکانات، پابندیوں میں جکڑے ہوئے ممالک اور تجارتی دباؤ کے نیچے دبتے ہوئے معاشرےیہ تمام عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مغرب کے مینار اپنی بنیادیں کھو چکے ہیں۔

اسی تاریک منظرنامے میں خطے کے ممالک کا قریب آنا ایک ایسا خوشگوار احساس ہے جیسے رات کی گہرائی میں کوئی چراغ اپنا دائرہ روشنی پھیلا دے۔ سب سے نمایاں تصویر بھارت اور چین کے بدلتے ہوئے تعلقات کی ہے۔ دہلی برسوں اس خوش فہمی میں رہا کہ مغرب اسے چین کے ہمسر بنا کر کھڑا کرے گا۔ مگر وقت کی ساعتوں نے یہ غرور یوں توڑا جیسے طوفان کسی نازک فانوس کو ریزہ ریزہ کر دے۔تین ماہ کے قلیل عرصے میں بھارت کے خواب دھند کی طرح چھٹ گئے۔ پاکستان کو غزہ بنانے کی اس کی خواہش فضاؤں میں تحلیل ہو گئی۔ معیشت کو عالمی قوت بنانے کا خواب امریکی ٹیرف نے مسمار کر دیا۔ عسکری برتری کے دعوے میدانِ حقیقت میں بے وزن نکلے۔ یوں آشکار ہوا کہ طاقت کا منصب صرف خواہش سے نہیں، تدبیر ،تقدیر اور حکمت کے ملاپ سے ملتا ہے۔اسی دوران امریکہ کی مانگیں بھارت کیلئے طوقِ اسیری بن گئیں۔ نہ دہلی اپنے کسانوں کو ناراض کر سکتا تھا، نہ ماسکو کے تیل سے دستبردار ہو سکتا تھا۔ اسی طرح پچیس برس پر محیط تعلقات سرد مہری کی یخ بستگی میں ڈھل گئے۔ عین اس لمحے بیجنگ نے دستِ تعاون بڑھایا۔ ویزوں اور پروازوں کا کھلنا محض انتظامی فیصلہ نہ تھا، یہ تو وقت کی دیوار پر لکھا گیا ایک پیغام تھا کہ تاریخ اب ایک نئے رخ پر بہہ رہی ہے۔

پاکستان کیلئے یہ سب اندیشے کا باعث نہیں۔ اسلام آباد اور بیجنگ کے تعلقات ریشمی دھاگے نہیں جو کسی جھٹکے سے ٹوٹ جائیں،یہ اعتماد اور حکمت کا ایسا قلعہ ہیں جسے وقت کے طوفان بھی مسمار نہیں کر پاتے۔ البتہ چین اور بھارت کی قربت ابھی ناتمام سفر ہے، اسے طے کرنے میں لمحے نہیں، برس درکار ہوں گے۔

یہ منظر ان لوگوں کے لئے آئینہ ہے جو چین کو امریکی ورلڈ آرڈر کا دوسرا چہرہ سمجھ بیٹھے تھے۔ سامراج کی پہچان جنگ اور تباہی ہے۔ چین کا طرزِ عمل سفارت اور یکجہتی ہے۔ اس نے ریاض اور تہران کو قریب کیا، فلسطینی دھڑوں کو ایک میز پر بٹھایا، دہلی، کابل اور اسلام آباد کو ایک ہی دن میں چھو لیااور پھر تمام سربراہان کو یکجا کر دیا۔ یہ تین صدیوں پر محیط ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘کی پالیسی کے مقابل پہلا معتبر جواب ہے۔

تاریخ کے سفر میں پیچ وخم اور نشیب و فراز بھی آتے ہیں اور مشکل سے مشکل موڑ بھی مگر اس کی سمت اکثر انسانوں کی تدبیروں سے بلند ہو کر متعین ہوتی ہے۔ امریکی استعمار کی کوشش ہوگی کہ خون بہا کر اس قربت کو زہر آلود کیا جائے۔ یہی وہ گھڑی ہے جب پاکستان کے ترقی پسندوں کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کو تنگ دائروں سے نکال کر وسیع تناظر میں رکھیں۔ داخلی سطح پر جمہوریت اور انصاف، اور خارجی سطح پر سالمیت و یکجہتی یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ آج کا اصل امتحان یہی ہے کہ ہم ان دونوں پہلوؤں کو بیک وقت جوڑ کر تاریخ کے سوالوں کا جواب تراش سکیں۔

تازہ ترین