شریف احمد قریشی
اس کہاوت کا مطلب ہے، طاقتور ہی کا سب کچھ ہے۔ جب کوئی طاقتور اپنے بَل بوتے پر زبردستی کسی کمزور کا مال اپنے قبضے میں کر لے، تو یہ مثل کہی جاتی ہے۔
’’ایک شخص بازار سے ایک بھینس خرید کر اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ راستے میں جنگل تھا، جب وہ وہاں سے گزر رہا تھا، تو اسے ایک چور ملا۔جس نےاُسے ڈرا دھمکا کر کہا کہ بھینس میرے حوالے کردو۔
بھینس والے نے آنا کانی کی، تو چور نے لاٹھی تان کر کہا، اگر تم نے اپنی بھینس نہیں دی تو اسی لاٹھی سے تمہارا سر پھاڑ دوں گا۔ پھر تم بھینس کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ اچھائی اسی میں ہے کہ بے چوں و چرا بھینس میرے حوالے کردو اور اپنے گھر کا راستہ ناپو‘‘۔
اُس شخص نے سوچا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔ کہیں یہ مجھے جان ہی سے نہ ماردے، لہذا، بھینس دینے ہی میں عافیت ہے۔ اس نے چور سے نہایت عاجزی و انکساری سے کہا، ’’اب یہ بھینس آپ کی ہے۔ راستہ سنسان ہے، اگر تم مجھے اپنی یہ لاٹھی دے دو، تو میں اس کے سہارے اپنے گھر تک پہنچ جاؤں گا۔‘‘
چور نے سوچا، قیمتی بھینس تو مجھے مل گئی ہے، اب لاٹھی دینے میں کیا مضائقہ ہے۔ اس نے اپنی لاٹھی دے دی۔ چور جوں ہی بھینس کو لے کر چلنے لگا۔ اس شخص نے لاٹھی تان کر کہا، ’’اب کہاں جاتا ہے؟ تیری عافیت اسی میں ہے کہ بھینس کو چھوڑ کر بھاگ جا، ورنہ تیرے سر کے دو ٹکڑے کردوں گا۔‘‘
چور گھبرا گیا۔ معاملہ الٹا ہوگیا تھا۔ موقعہ کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اس نے بھینس چھوڑ دی اور لاٹھی واپس مانگی۔ اس شخص نے جواب دیا، اب یہ لاٹھی تیرے ہاتھ آنے والی نہیں، کیوں کہ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔‘‘