دنیا کے 44ملکوں سے ہزاروں جانباز رضا کاروں کا قافلہ پچاس کشتیوں پر سوار غزہ کا ظلم اور بربریت پر مبنی محاصرہ توڑنے کیلئےسمندر کے سفر پر روانہ ہوچکا ہے اور ہم جیسے انہیں حیرت اور استعجاب سےدیکھتے ہیں۔افتخار عارف کی نظم کا یہ مصرع یاد آتا ہے
جہاں جینے کی خاطر مر رہے ہوں لوگ
اس بستی میں مر جانا بڑی بات .....
حقیقت یہی ہے کہ وہ اس وقت دنیا کے تاریخ کے بےحس ترین اور ظالموں کے بھی ظالم فرعون سے ٹکر لے رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ تین طرح کی صورتحال درپیش ہو سکتی ہے گرفتار ہو سکتے ہیں، ڈی پورٹ ہو سکتے ہیں یا پھر اس راہ میں شہید ہو سکتے ہیں ،ان حقائق کے باوجود سب کے حوصلے بلند ہیں۔اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انسانیت کی آوازبننے والے ان رضاکاروں کا کہنا ہے کہ ہم نے یہ بھاری ذمہ داری اس لیے اٹھائی کہ حکومتیں ناکام ہوگئی ہیں ،اقوام متحدہ ناکام ہوگئی ہے۔ غزہ میں ہونے والی نسل کشی کو دنیا میں لائیوا سٹریم جینو سائیڈ کے طور پر دکھایا جارہا ہے ۔یہ چند ہزار لوگ انسانیت کی آواز ہیں۔
بے انت خامشی میں کہیں اک صدا تو ہے
ماتم ہوائے شہر نے اب کے کیا تو ہے
غزہ کی طرف فریڈم فلوٹیلا تو پہلے بھی گئے ہیں اس بار خاص بات یہ ہے کہ عشاق کے اس قافلے میں پاکستان کی نمائندگی سینیٹر مشتاق احمد کررہے ہیںجنہیں بعد ازاں پانچ اور پاکستانی نوجوانوں نے جوائن کیا۔سینیٹر مشتاق کے حوصلے ان نوجوانوں سے بھی بلند ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کا احسان ہے کہ ہم اس تاریخی لمحات کے مناظر ویڈیوز کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔مذہب، مسلک ،رنگ اور جغرافیہ سے ماورا یہ عاشقوں کا قافلہ استقامت ہے ۔ ان کی سج دھج اسی شجاع اور دلیر کی سج دھج ہے جو مقتل کی جانب یہ کہتے ہو چلاجائے کہ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں ۔ تیونس کی بندرگاہ پر کشتیوں کے قافلے کی کلیدی کشتی پر جس میں فریڈم فلوٹیلا کی سربراہ سویڈن کی نوجوان ماحولیاتی ایکٹیوسٹ گریٹا تھم برگ سوار تھی اس پر تو ڈرون حملہ بھی کیا گیا۔کہا گیا کہ یہ چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے اقوام متحدہ اس پر ازخود ایکشن لے۔جنرل اسمبلی اس پراپنا ہنگامی اجلاس بلائے کیو نکہ یہ حملہ اسرائیل نے ایک ایسے قافلے پر کیا جس میں دنیا کے 44 ملکوں کے نہتے رضاکار موجود تھے جن کے پاس غزہ کا محاصرہ توڑنے کیلئے اسلحہ نہیں دوائیں اور امداد کا سامان ہے۔ لیکن کون سی اقوام متحدہ اور کون سی جنرل اسمبلی جو گزشتہ دو برس سے غزہ کے ہولناک انسانی المیے پر محض خاموش تماشائی ہیں۔جسکی جنرل اسمبلی میں غزہ اور فلسطین میں جنگ بندی کی قراردادیں پچاس سے زائد مرتبہ ویٹو ہو چکی ہیں ۔کیا ستم ظریفی ہے کہ 193 اقوام عالم پر مشتمل امن قائم کرنے کا یہ عالمی ادارہ انہی دنوں جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس کی کارروائی آغاز کرچکا ہے۔Better Together:80 years and more for peace development and human rights. جنرل اسمبلی کا یہ نعرہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ۔بدقسمتی سے ہم ایک ایسی دنیا میںجی رہے ہیں جہاں نعروں اور حقیقت کے درمیان بعض اوقات نوری سال کا فاصلہ حائل ہوتا ہے۔ امن کا پروپیگنڈا کر کے جنگیں مسلط کی جاتی ہیں یہاں آنکھیں چھین کر چراغ بانٹنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس آنے والے اکتوبر کی سات تاریخ کوغزہ میں بربریت اور ظلم کے دو سال مکمل ہو جائیں گے ۔کون سا ظلم ہے جو مظلومین غزہ پر نہیں ڈھایا گیا، ان کی آبادیاں ملیامیٹ کی گئیں، ان کے اسپتالوں پر بم گرائے گئے۔وہاں نہ ہسپتال بچے نہ آبادیاںاب خیمہ بستی میں لٹے پٹے زخمی جنگ زدگان خالی برتن لیے بھوکے پیٹوں کھانے کے منتظر رہتے ہیں۔
ظلم کی انتہا کرنے کے بعد بھی اسرائیلی ظالموں کی تسلی نہیں ہوتی تو کھانے کیلئے برتن اٹھائے مظلوم بچوں پر بمباری کر دی جاتی ہے۔ بھوک کے ہتھیار سے ان کے پہلے سے زخم خوردہ نحیف جسموں کوروندا جا رہا ہے مگر دنیاکے طاقتور فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہولناک لائیو اسٹریم دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیں۔
اقوام متحدہ کا کردار ایسا ہے کہ وہ اس جنگ میں شراکت دار محسوس ہوتی ہے۔ یہاں غزہ میں ظلم اور جنگ بندی کی ہر قرارداد کو ویٹو کیا گیا ۔ کاش کہ اقوام عالم کیلئے انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والی سلامتی کونسل اپنے 80 ویں اجلاس میں 50 کشتیوں کے قافلے کو عالمی سطح پر تحفظ فراہم کرنے کا اعلان کرے کیونکہ اس میں سوار ہزاروں لوگ صرف اور صرف امن کے داعی ہیں۔اقوام متحدہ کا چارٹر اس بھید سے بنایا گیا ہے کہ طاقتوروں کا تسلط کمزوروں پر قائم رہے۔یہ اقوام عالم کے مشترکہ مفاد کا ادارہ نہیں ، چند طاقتوروں کے ہاتھ میں ایک ایسی چھڑی ہے جس سے وہ اپنے مفاد اور اپنی مرضی کے مطابق دنیاکو چلانا چاہتے ہیں۔ ہم بطور پاکستانی اقوام متحدہ کی اس نا انصافی کا شکار ہیں ۔بھارت کی آبی جارحیت سے آدھا پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔بھارت کی آبی جا رحیت کا معاملہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر موجود ہے پاکستان کے مستقل مندوب عثمان جدون نےاس فورم پر برملا کہاکہ سلامتی کونسل بھارت کی آبی جارحیت کو لگام دے اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سے پیدا ہونیوالے ممکنہ انسانی المیے کو روکے لیکن ان تمام اپیلوں اور تقریروں سے سلامتی کونسل کی سماعتوں پر کچھ اثر نہ ہوا ۔کیا اقوام متحدہ بھی لیگ آف نیشنز کی طرح عالمی امن کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے یہ موضوع ایک اور نشست کا متقاضی ہے۔ فی الحال تو میرا دل بھی پچاس کشتیوں کے اس قافلہ استقامت کیساتھ ایک کشتی کی صورت بہے جا رہا ہے جو غزہ کے مظلوموں کی پکار پر انسانیت کی آواز بن کر سمندر کی لہروں پر تیر رہی ہیں۔