• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت نے’’آپریشن بنیان مرصوص‘‘میں بری طرح شکست کھائی مگر اس کے باوجود اسکا جنگی جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے جبکہ معرکہ حق میں پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر پاک فضائیہ کی جرات بہادری اور مہارت کو دیکھ کر امریکہ سمیت دنیا بھر کے چھوٹے بڑے ممالک سرپرائز کا شکار ہیں۔ پھر بھی بھارت کا ’میک اِن انڈیا‘ رافیل طیاروں کا بڑا منصوبہ سامنے آیا ہے جسکے ایک تفصیلی جائزے کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ مختصر جھڑپ ’’آپریشن بنیان مرصوص معرکہ حق‘‘ کے دوران ہندوستانی فضائیہ کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں رافیل سمیت چھ طیارے تباہ ہوگئے۔ اس واقعے نے عالمی سطح کے دفاعی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی اور دنیا بھر میں بھارتی فضائیہ کی صلاحیتوں پر سوال اٹھنے لگے۔ اس پس منظر میں، بھارت نے اپنی فضائی قوت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ حال ہی میں، ہندوستانی فضائیہ نے وزارت دفاع کو 114 ’میڈ اِن انڈیا‘ رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کی ایک بڑی تجویز پیش کی ہے۔ اس معاہدے کی تخمینی لاگت 2لاکھ کروڑ روپے سے زائد ہو سکتی ہے، جو اسے بھارت کی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی سودا بنا سکتی ہے۔’میک اِن انڈیا‘ کا یہ مجوزہ معاہدہ کئی اہم پہلوؤں کی وجہ سے منفرد ہے۔ سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ یہ طیارے فرانسیسی کمپنی ڈاسالٹ ایوی ایشن کے تعاون سے بھارت میں ہی تیار کیے جائیں گے۔ رپورٹس کے مطابق، ان طیاروں میں 60فیصد سے زائد اندرونی مواد (indigenous content) استعمال ہونے کی توقع ہے، جسکا مقصد بھارت کی مقامی صنعت کو فروغ دینا ہے۔ اس کیلئے ایڈوانسڈ سسٹمز جیسی مقامی کمپنیوں کو شامل کیا جائے گا۔ یہ اقدام ’میک اِن انڈیا‘ پالیسی کے تحت بھارت کو دفاعی پیداوار میں خود کفیل بنانے کے وژن کا حصہ ہے۔ اس وقت، ہندوستانی فضائیہ کے پاس 36رافیل طیارے موجود ہیں اور بحریہ کیلئے بھی 36کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ اگر یہ نیا معاہدہ منظور ہو جاتا ہے تو بھارت کے پاس کل 176رافیل طیاروں کا ایک بڑا بیڑا ہو جائے گا، جو اس کی فضائی طاقت میں ایک تاریخی اضافہ ہوگا۔

اس معاہدے کی قیمت کا تخمینہ اور اس کی کل لاگت 2لاکھ کروڑ روپے ہے، جو فی طیارہ تقریباً 17ارب روپے بنتی ہے۔ یہ قیمت صرف طیارے کی نہیں بلکہ اس میں ٹیکنالوجی کی منتقلی، لائسنسنگ، دیکھ بھال کے سازوسامان، تربیت، اسپیئر پارٹس اور ممکنہ ہتھیاروں اور سنسر پیکیج جیسے تمام اخراجات شامل ہیں۔ یہ ایک ابتدائی تخمینہ ہے اور حتمی معاہدے میں قیمت کی تفصیلات میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔خریداری کے مراحل اور مستقبل کا لائحہ عمل کی تجویز کو عملی شکل دینے میں کئی مراحل باقی ہیں۔ ہندوستانی فضائیہ کی طرف سے پیش کی گئی اس تجویز پر اس وقت وزارت دفاع کے متعلقہ شعبوں (جیسے ایکوائزیشن ونگ اور ڈیفنس فنانس) میں غور کیا جا رہا ہے۔ اسکے بعد یہ تجویز ڈیفنس پروکیورمنٹ بورڈ (DPB) اور پھر ڈیفنس ایکوائزیشن کونسل (DAC) کے سامنے پیش کی جائیگی۔ ضرورت پڑنے پر اس کی منظوری کے لیے اسے کابینہ کی کمیٹی تک بھی بھیجا جا سکتا ہے۔

اس کے پیداواری شیڈول رپورٹس کے مطابق، ڈاسالٹ اور ٹاٹا کی شراکت داری سے 2028 تک رافیل کے کچھ حصے (جیسے فوزیلیج) تیار کرنا شروع کر سکتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر مقامی پیداوار شروع ہونے میں مزید تین سے چھ سال لگ سکتے ہیں۔ ڈیلیوری کا حتمی شیڈول معاہدے کی شرائط پر منحصر ہوگا۔اس بڑے معاہدے میں کئی چیلنجز بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ ان میں مالیاتی چیلنج 2 لاکھ کروڑ روپے کی ایک بڑی رقم کا انتظام کرنا اور اسے دفاعی بجٹ میں شامل کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔جبکہ تکنیکی چیلنج میں 60 فیصد سے زائد مقامی مواد کا ہدف حاصل کرنے کے لیے مقامی سپلائی چین کو مضبوط کرنا اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کو یقینی بنانا ضروری ہوگا۔اس معاہدے میں سیاسی اور قانونی چیلنج ماضی میں بھی رافیل معاہدے پر بدعنوانی اور شفافیت کے حوالے سے سیاسی بحثیں اور قانونی چیلنجز سامنے آ چکے ہیں۔ اس نئے معاہدے پر بھی پارلیمانی تفتیش اور عوامی آڈٹ کا امکان رہے گا۔


یہاں رافیل کی کچھ اہم تکنیکی خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں۔یہ دو انجن والا، ملٹی رول ’اومنیرول‘ فائٹر جیٹ ہے، جو ایک ساتھ کئی مقاصد کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار تقریباً 1.8ماخ (آواز کی رفتار کا 1.8 گنا) ہے اور یہ 50ہزارفٹ کی بلندی تک پرواز کر سکتا ہے۔صلاحیت کے لحاظ سے یہ طیارہ فضائی بالادستی، زمینی حملوں، بحری جہازوں کو نشانہ بنانے اور جاسوسی جیسے مختلف مشن انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں جدید ترین سینسر اور ایویونکس سسٹم بھی نصب ہے۔

یہ معاہدہ نہ صرف بھارت کی فضائی طاقت میں ایک بڑا اضافہ کرے گا بلکہ اسکے دفاعی صنعت میں خود کفیل ہونے کے خواب کو بھی نئی جہت دے گا۔ تاہم، اسکی منظوری اور تکمیل کا عمل کئی مراحل سے گزریگا اور اسکے راستے میں کئی چیلنجز بھی درپیش ہو سکتے ہیں۔مگر معرکہ حق کے دوران ان جہازوں کے استعمال پر مہارت کے ناقدین یعنی بھارتی پائلٹ تھے علاوہ ازیں بھارتی ریڈار سسٹم پر سوالا ت اٹھے جبکہ اس کی ذمہ داری فرانسیسی کمپنی پر عائد کی گئی تھی لہٰذا اب بھارت فضائی طاقت میں اضافہ کو فوقیت دیتے ہوئے بھارتی دفاعی بجٹ کا بڑا حصہ اس معاہدے پر صرف کرنے کی بھارتی فضائیہ کی مجوزہ تجویز پر غور اور اس عملی جامہ پہنانے کی تیاریاں کررہاہے تاکہ خطے میں فضائی بالا دستی حاصل کر سکے۔

تازہ ترین