• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کافی یا چائے: شوگر کے مریضوں کے لیے کیا بہتر ہے؟

فائل فوٹو
فائل فوٹو

دنیا بھر میں لاکھوں افراد روزانہ کافی یا چائے پینے کو اپنی عادت کا حصہ بنائے ہوئے ہیں، مگر ذیابیطس کے مریضوں کے لیے یہ فیصلہ اکثر مشکل ہو جاتا ہے کہ دونوں میں سے کون سا مشروب زیادہ فائدہ مند ہے۔

ماہرین کے مطابق کافی اور چائے دونوں میں صحت کے لیے فائدے موجود ہیں، لیکن ان کا اثر زیادہ تر اس بات پر منحصر ہے کہ انہیں کس انداز میں پیا جا رہا ہے۔

تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ باقاعدگی سے کافی پینے والے افراد میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ کچھ حد تک کم ہو سکتا ہے، کافی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس اور کلوروجینک ایسڈ انسولین کی حساسیت بہتر بناتے ہیں۔

بلیک کافی تقریباً کیلوریز سے پاک ہوتی ہے اور وزن بڑھانے کا باعث نہیں بنتی تاہم، تین سے چار کپ سے زیادہ پینے کی صورت میں دل کی دھڑکن تیز ہونے اور نیند متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر کافی میں چینی، کریم یا میٹھا دودھ شامل کیا جائے تو یہ خون میں شوگر لیول کو فوری بڑھا دیتی ہے، جس سے شوگر کے مریضوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

سبز چائے (گرین ٹی) میں کیٹیچنز نامی اجزاء پائے جاتے ہیں جو انسولین کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور وزن کنٹرول کرنے میں مددگار ہیں، سیاہ چائے اور ہربل ٹی بھی اینٹی آکسیڈنٹس فراہم کرتی ہیں جو دل کی صحت کے لیے مفید ہیں۔

چائے میں کیفین کافی کے مقابلے میں کم ہوتی ہے، اس لیے یہ دل اور بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے نسبتاً محفوظ انتخاب ہے، لیکن دودھ والی چائے یا زیادہ شکر کے ساتھ تیار کی گئی چائے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

کچھ ہربل چائے ایسی بھی ہیں جو بلڈ پریشر یا خون پتلا کرنے والی ادویات کے ساتھ ردعمل پیدا کر سکتی ہیں، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر کے مریض اگر اعتدال کے ساتھ کافی یا چائے پئیں اور اس میں چینی شامل نہ کریں تو دونوں ہی مشروبات صحت بخش ثابت ہو سکتے ہیں، کافی انسولین کی حساسیت بہتر بناتی ہے جبکہ چائے دل کی صحت کو سہارا دینے کے ساتھ کیفین کی کم مقدار فراہم کرتی ہے۔

چوائس کا انحصار مریض کی صحت اور مشروبات کی تیاری کے طریقے پر ہے، ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بلیک کافی یا بغیر چینی والی چائے سب سے محفوظ انتخاب ہے۔


نوٹ: یہ ایک معلوماتی مضمون ہے، اپنی کسی بھی بیماری کی تشخیص اور علاج کےلیے اپنے معالج سے رابطہ کریں۔

خاص رپورٹ سے مزید