کل میری ملاقات ایک دوست سے ہوئی، برا حال بانکے دہاڑے، ہونٹوں پر پپڑی جمی ہوئی ، رنگ اڑا ہوا !میں نے پوچھا’’تم تو اچھے بھلے تھے۔ یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“بولا ’’عشق ہو گیا ہے‘‘میں نے کہا ’’عشق میں یہ حال تو نہیں ہوتا ؟“کہنے لگا ’’یہی حال ہوتا ہے!“پوچھا، کیسے؟بولا’’ کہ نظروں کے سامنے ہر وقت محبوب کا پیکر ہوتا ہے ہر شخص میں اس کی تصویر نظر آتی ہے، اس کی وجہ سے بہت پریشان رہتا ہوں‘‘میں نے کہا ” اس میں پریشانی کی کون سی بات ہے؟“،’’ہے نا، چند دن پہلے میں نے اسکوٹر کھمبے میں جا مارا کیونکہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی میرا دھیان اپنے محبوب کی طرف تھا، اسی طرح پرسوں میری پٹائی ہوتے ہوتے رہ گئی کیونکہ مجھے اس کی تصویر کسی اور میں نظر آ گئی تھی‘‘۔’’یہ تو واقعی تشویشناک بات ہے‘‘۔’’صرف یہی نہیں بلکہ میرے گھر والے اور میرے دفتر والے مجھے پاگل بھی سمجھنے لگے ہیں“وہ کیسے؟’’وہ ایسے کہ میں بے خیالی میں اکیلے بیٹھا اس سے باتیں کرتا رہتا ہوں چنانچہ جو کوئی مجھے اس عالم میں دیکھتا ہےپاگل سمجھ بیٹھتا ہے۔“،’’ایسے آدمی کو پاگل نہیں تو اور کیا سمجھا جائے گا ؟‘‘،’’یہ بات تو میں بھی سمجھتا ہوں لیکن میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں مثلاً جب میں کھانا کھانے بیٹھتا ہوں، اول کھانےکو جی نہیں چاہتا ، جب زبردستی کھانے لگتا ہوں تو اس کی باتیں یاد آنے لگتی ہیں، اس کا چہرہ آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے جسکے نتیجے میں میرا معدہ خراب ہو گیا ہے، کئی دنوں سے حکیموں کی دوائیاں کھا رہا ہوں مگر وہ اثر ہی نہیں کر رہیں کیونکہ پیٹ خرابی کی وجہ تو اپنی جگہ ہے‘‘۔’’ہاں ، یہ تو ہے‘‘میں نے بور ہو کر کہا۔’’مجھے پتہ ہے، اب تم بھی میری باتوں سے بور ہونے لگے ہو وہ بولا’’میرے سارے دوست میری باتوں سے بور ہو کر میرے پاس بیٹھنا چھوڑ گئے ہیں کیونکہ میں ان سے ہر وقت اس کی باتیں کرتا رہتا ہوں۔ مجھے اس پر بھی بہت ندامت ہے‘‘ہونی بھی چاہئے میں نے اس بے وقوف دوست کی دل شکنی کیلئے کہا کیونکہ اس کی حالت واقعی تشویشناک تھی اور اسے اس حالت سے نکالنےکیلئے اس طرح کا سچ بولنا ضروری ہو گیا تھا۔مگر لگتا تھا وہ اس طرح کی باتوں کا عادی ہو گیا ہے چنانچہ اس نے میری بات نظر انداز کرتے ہوئے کہا ’’مجھے سب سے زیادہ غصہ کسی اور بات پر ہے!“وہ شاید چاہتا تھا کہ میں پوچھوں کس بات پر مگر میں چپ رہا، اس پر وہ خود ہی بولا ’’میں بڑا خود غرض شخص تھا، اس دنیا میں، میں صرف اپنے لئے جیتا تھا کھاتا پیتا تھا عیش کرتا تھا، دوستوں میں بیٹھ کر قہقہے لگاتا تھا، سب مجھ سے خوش تھے، میں سب سے خوش تھا مگر جب سے عشق میں مبتلا ہوا ہوں ، میرے اندر بے لوثی اور بے غرضی آتی جارہی ہے۔ میرا دل موم کی طرح نرم ہو گیا ہے، میں کوئی اچھی چیز کھاتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ کاش وہ بھی پاس ہوتا اور وہ بھی اس کا ذائقہ چکھتا، کوئی اچھا منظر دیکھتا ہوں تو وہ منظر اسے بھی دکھانا چاہتا ہوں ، کسی بات پر خوش ہوتا ہوں تو اکیلے خوش ہونا مجھے اچھا نہیں لگتا، اپنی اس خوشی میں ، میں اسے بھی شریک کرنا چاہتا ہوں‘‘یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ اس نے رومال سے اپنی آنکھیں پونچھیں ، شاید نمی سی آگئی تھی۔میں نے اسے کاندھوں سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا ’’کچھ اور بولو، کچھ اور بتاؤ‘‘ میری بوریت یک لخت ختم ہو گئی تھی اور مجھے یہ شخص اچھا لگنے لگا تھا’’ اور یہ کہ وہ میری تنہائیوں میں بھی شریک ہو گیا ہے۔ میں اب خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا۔ میرے اندر ایک نئی قوت آگئی ہے، اب میں طوفانوں کا مقابلہ بھی کر سکتا ہوں لیکن اس کے باوجود میں عشق سے چھٹکارا چاہتا ہوں کیونکہ وہ میری ہر چیز میں حصے دار بن گیا ہے، جو میرے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ ویسے بھی لوگ میری کیفیات پر ہنستے ہیں، میں نہیں چاہتا لوگ مجھ پر ہنسیں“اس پر میں نے اسے مخاطب کیا اور کہا’’پہلے میں بھی تمہیں ترک عشق کا مشورہ دینے والا تھا۔ مگر اب یہ مشورہ نہیں دوں گا، بلکہ میرا مشورہ یہ ہے کہ اپنی عشق کی ریاضت تیز کر دو، تا کہ اس کے نتیجے میں تمہیں لوگوں کا تم پر ہنسنا بھی برانہ لگے، جب تم اپنی اس کمزوری پر بھی قابو پالو گے اور اپنی چیزوں میں محبوب کے علاوہ باقی خلق خدا کو بھی شریک کر لو گے، تو تمہارا عشق مکمل ہو جائے گا‘‘تم کہنا کیا چاہتے ہو’’اس نے پوچھا‘‘میں کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ ایک عاشق اور ایک صوفی میں جو نازک سا فرق ہے، وہ صرف اتنا ہے کہ صوفی خلق خدا کی ملامت کی پروا نہیں کرتا اور اپنے عشق کی تکمیل میں لگا رہتا ہے۔ تم نے باقی سارے مراحل طے کر لئے ہیں۔ جس دن تم نے لوگوں کے ہنسنےکی بھی پروا نہ کی اس دن تم صوفی ہو جاؤ گے، اپناعشق جاری رکھو، میں ساتھ ہوں‘‘۔