میں عموماً کتابوں کی رونمائی میں شرکت نہیں کرتا۔ جب کبھی کسی دوست کی طرف سے اس قسم کی فرمائش ہوتی ہے تو مجھے سلیم احمد مرحوم یاد آ جاتے ہیں۔ ایک اسی نوعیت کی تقریب میں وہ بھی مدعو تھے جب اظہارِ خیال کیلئے ان کا نام پکارا گیا تو مائیک ہاتھ میں پکڑنے سے پہلے انہوں نے سرگوشی کے انداز میں کہا ’’اللّٰہ معاف کرے آج مجھے پھر جھوٹ بولنا پڑے گا۔‘‘ ایک اسی نوع کی تقریب میں، میں جب کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا تو تقریب کے اختتام پر ایک صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ اسی کتاب کی ایک اور تقریب رونمائی میں آپ نے کہا تھا کہ یہ کتاب سیکنڈ کلاس ہے۔ میں نے کہا تمہارا حافظہ خراب ہے میں نے اسے سیکنڈ نہیں تھرڈ کلاس کہا تھا۔ ایک بات اور کہ کتاب کی رونمائی کی تقریبات میں مقالہ نگار حضرات تین گنا لمبے مقالے لکھ کر سناتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ حاضرین کی ایک تعداد مصنف کے ملنے جلنے والے خواتین و حضرات کی ہوتی ہے اور انکے علاوہ کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جنکی تقریب رونمائی میں فلاں صاحب نے شرکت کی تھی اور یوں حساب پورا ہو جاتا ہے۔ مقالہ نگار اس صورتِ حال سے ناواقفیت کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ کتاب کی محبت میں کچھ سننے کیلئے آئے ہیں، چنانچہ وہ دل کھول کر لکھتے ہیں اور مجمع کے حوالے سے انکی رائے ہوتی ہے کہ وہ پوری دل جمعی سے سن رہے ہیں، تبھی تو ایک سناٹا سا طاری ہوتا ہے۔ کوئی آواز نہیں آ رہی ہوتی ہاں چند سامعین کے قریب بیٹھے ہوئے کسی سامع کے خراٹے ان کی نیند میں خلل ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے صرف ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ سلوک ہر کتاب کے مضمون نگاروں کے ساتھ نہیں ہوتا صرف ان کتابوں کے ساتھ ہوتا ہے جو اس سلوک کی حق دار ہوتی ہیں۔میں نے یہ سب باتیں ڈنر سے پہلے اسٹارٹر کے طور پر کی ہیں۔ ورنہ میں نے اظہارِ خیال کرنے والے دانش وروں کے نام پڑھ کر ہی جان لینا تھا کہ یہ خاص لوگ ہیں جو صرف خاص قسم کی کتابوں کو اظہارِ خیال کے قابل سمجھتے ہیں اور یوں ابھی تک میں جو انٹ شنٹ باتیں کر رہا تھا، آپ یوں سمجھیں کہ میں ڈگڈگی بجا کے آپ لوگوں کو بیٹھے رکھنے کیلئے کہہ رہا تھا تاکہ ان بڑے لوگوں کے بعد آپ ایک تیسرے درجے کے نام نہاد ادیب کا نام سن کر ہال خالی نہ کرنا شروع کر دیں۔ اس تقریب میں دائود طاہر نے میرا نام صرف اس لیے شامل کیا کہ کتاب کی آمد سے نصف صدی پہلے دائود طاہر سے میرے محبت بھرے تعلقات تھے۔ وہ ان دنوں لاہور میں انکم ٹیکس کمشنر تھے۔ میں اور عبداللطیف اختر گاہےگاہے ان سے ملنے ان کے دفتر جایا کرتے تھے اور ظاہر ہے ہمارا انکم ٹیکس کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ کیونکہ 450 روپے ماہوار آمدنی والے شخص کو حکومت موقع ہی نہیں دیتی تھی کہ وہ بھی ساڑھے چار سو کے ہیر پھیر کا حساب دے۔ لوگوں کی دائود طاہر سے ملنے جلنے کی واحد وجہ ان کی دلکش شخصیت اور ہماری ہی طرح ہنستے کھیلتے زندگی گزارنے کی تھی۔ دوسری اور بڑی وجہ ادب سے ان کا جائز تعلق تھا۔ سو خوب گپ شپ رہتی اور گرما گرم چائے بھی پینے کو ملتی۔ وہ یوں دونوں پارٹیوں کے ملاپ میں کوئی ذاتی مفاد نہیں شامل تھا، ان دنوں مجھے حسرت ہی رہی کہ ہمیں کوئی دائود طاہر سے اپنے کسی جائز یا ناجائز کام کیلئے کہتا۔ میں ٹیکس چوروں سے فخریہ کہتا کہ دائود طاہر میرا یار ہے مگر وہ میرا اشارہ سمجھ نہ پاتے کہ ان کے مسائل کوئی انکم ٹیکس انسپکٹر نذرانہ لے کر پوری چابک دستی سے حل کر دیتا۔ پھر ان کی ٹرانسفر لاہور سے باہر کہیں ہو گئی اور ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت دوبارہ شروع ہوا جب ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی آپ بیتی ’’جو بیت گیا ہے وہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی اور وہ ازراہِ کرم اس کتاب کی کاپی دینے میرے ’’معاصر‘‘ کے دفتر تشریف لائے، وہ تقریباً میرے ہم عصر ہیں۔ مگر ماشاء اللّٰہ چہرے مہرے سے بھی عقد ثانی کے اہل لگتے ہیں۔ان کی کتاب ’’جو بیت گئی ہے وہ‘‘ پورے ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ سو میں کئی دنوں سے اس انتہائی دلچسپ کتاب کے ایک سو صفحات پڑھتا رہا اور بہت مزا لیا کہ دائود طاہر اظہار کے فن پر عبور رکھتے ہیں، چنانچہ مجھے ایک آدھ دفعہ سے زیادہ یہ احساس نہیں ہوا کہ مصنف بھٹک گیا ہے۔ مجھے تو علم ہے، مگرجو لوگ دائود طاہر ایسی دلکش شخصیت سے ناواقف ہیں، وہ سوچ ہی نہیں سکیں گے کہ یہ مصنف کی پہلی کاوش ہے۔ تحریر انسان کو یہ ہزار صفحات کی کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے، چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:’’شکایت کنندہ کسی افسر کے خلاف رشوت کا الزام لگاتا ہے مگر بہت جلد ایک اور درخواست کے ذریعے اسی شکایت کو غلط فہمی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے اپنی ہی شکایت کی نفی کر دیتا ہے۔میرے تجربے کے مطابق یہ شکایت اس افسر یا کارکن کی طرف سے معاملہ فہمی مثلاً رشوت میں دی گئی رقم کی واپسی کے بعد ہی واپس لی جاتی ہے۔‘‘ایک صاحب کا نام لیے بغیر (ویسے میں ان کے نام سے واقف ہوں) وہ بتاتے ہیں کہ جب انہیں پتہ چلا کہ میرا تقرر بطور کمشنر ہو چکا ہے تو پوچھا کہ کیا یہاں کسی اور کمشنر کی گنجائش موجود ہے، میں نے کہا مجھے علم نہیں مگر جنرل پرویز مشرف سے آپ کے تعلقات ہیں۔ وہ چاہیں تو کام ہو سکتا ہے۔ پھر انہوں نے اس حوالے سے مجھ سے کوئی اور بات نہیں کی مگر جلد ہی ان کا تقرر بطور چیئرمین پاکستان ٹیلی بل کراچی ہو گیا۔ آخر میں ایک اور مثال۔ سوات کے کچھ علاقوں میں بیٹیوں کی فروخت کا کام بھی ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایک واقعہ جو بہت تفصیل سے بیان ہوا ہے اسکا خلاصہ یہ ہے کہ ایک ایسی ہی بے بس بچی اپنے خریدار جو اسکا خاوند تھا، حاملہ ہوئی تو اس نے اس بچی کو اپنی بچی ماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر لڑکی نے چترال واپس جانے کا ارادہ کر لیا اور چترال جانیوالی بس پر سوار ہو گئی۔ وہ لڑکی بتاتی ہےکہ ڈرائیور نے مجھے کہا کہ تمہارے لیے رات کا سفر ٹھیک نہیں اور اس کے بعد مزید چکنی چپڑی باتیں کرنے لگا۔ ایک دو اور سواریاں بھی مجھ سے بہت ہمدردی جتا رہی تھیں مگر مجھے ان سب کی آنکھوں میں وحشت نظر آ رہی تھی۔ مجھے ان کی چکنی چپڑی باتوں اور لمبی لمبی داڑھیوں پر تو کوئی بھروسہ نہ تھا۔ابھی اور بھی بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا تھا مگر چونکہ یہ کالم کے طور پر اخبار میں شائع ہونا ہے اور وہاں ایک ہزار الفاظ کی پابندی ہے اور یہ اس سے کہیں زیادہ ہو گئے ہیں۔