• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور سیلابوں کا بڑا پرانا ساتھ ہے۔ قیام پاکستان کے تیسرے سال ہی نوزائیدہ ملک کو 1950ءمیں ایک بڑے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، جس میں کم و بیش دو ہزار انسانی جانوں کا ضیاع ہوا تھا۔ چونکہ ابتدائی برسوں میں انتظامی ڈھانچہ ابھی نامکمل اور خاصا کمزور تھا لہٰذا بچائو کے انتظامات بھی ناکافی تھے۔ پھرسیلابوں کے مستقل تدارک کی جانب بھی کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔ 1960ءکے عشرے میں مغربی پاکستان میں نئے ڈیموں، بند،بیراجوں اور ہیڈز کی تعمیر سے واٹر مینجمنٹ خاصی بہتر ہو گئی مگر مشرقی پاکستان کو پے درپے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1970ءمیں بھی مشرقی پاکستان کو ایک بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ البتہ مغربی پاکستان میں چند سال سکون کے رہے۔ لیکن اسکے بعد 1973ءاور پھر 1976ءمیں خطرناک سیلاب آئے۔ 1988ءمیں ملک بالخصوص پنجاب کو تاریخ کے ایک بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا ۔ پھر 1992ءمیں بھی ایک خوفناک سیلاب آیا جس میں دو ہزار سے زائد افراد جان سے گئے اور 90 لاکھ سے زائد متاثر ہوئے۔ 2010ءمیں سیلابوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا اور اس سیلاب نے ملکی معیشت کو 10 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا۔2011ءاور پھر 2014ءمیں ملک دوبارہ سیلاب کی لپیٹ میں آ گیا اور اسکے بعد 2022ءمیں ہم نے ملک کا ایک بدترین سیلاب دیکھا جسے موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک اہم کیس اسٹڈی کہا جا سکتا ہے۔ اس سیلاب میں جانی نقصان تو 1700 سے کچھ زائد افراد تک محدود رہا مگر مالی نقصان کی کوئی حد نہیںتھی۔ 20لاکھ سے زائد مکانات تباہ ہوئے اور 30 بلین ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا۔ قصہ کوتاہ ہر چند سال بعد ملک سیلابوں میں ڈوبتا رہا مگر انتظامات آٹھ دہائیوں بعد بھی ناکافی رہےاور اب 2025ءمیں پھر سیلاب آ گیا اور پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا مگر اہل اقتدار کی مستقل مزاجی دیکھیں کہ انتظامات اب بھی ناکافی ہیں۔البتہ ماضی اور حالیہ سیلاب میں ایک واضح فرق ہے۔ ماضی میں بیشتر سیلاب ناقص مینجمنٹ کا شاخسانہ تھے مگر حالیہ سیلاب زیادہ بارشوں، گلیشیر پگھلنے اور بادل پھٹنے جیسے واقعات کا نتیجہ ہے۔ پنجاب اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب سے نبرد آزما ہے اور وہ دریا جو چار دہائیوں سے خشک ہو چکے تھے‘ اس وقت رواں ہو کرراہ میں آنیوالی ہر چیز بہاتے لے جا رہے ہیں۔ اس میں بھارت کی جانب سے دریائے ستلج‘ دریائے راوی اور دریائے چناب میں پانی چھوڑنے کا معاملہ بھی اہم ہے۔ دریائے ستلج میں پانی چھوڑنے کے بعد قصور اور گرد ونواح کے علاقے شدید متاثر ہوئے۔ گنڈاسنگھ والا اور اسکے قریبی اضلاع پر پانی کے بہائو میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا جسکے نتیجے میں قصور اور نواح میں سینکڑوں دیہات زیرِ آب آ گئےاور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ بھارت نےدریائے ستلج میں دو لاکھ پچاس ہزار کیوسک سے زائد پانی چھوڑا ۔ اس سیلابی پانی نے نہ صرف مکانات، سڑکوں اور رابطہ پلوں کو بہا دیا بلکہ روزگار کے ذرائع بھی تباہ کر دیے ہیں۔ حکومت اور ریسکیو ادارے ہنگامی بنیادوں پر متاثرین کی مدد کیلئے کوشاں ہیں ۔ پنجاب ریلیف کمشنر کی رپورٹ کے مطابق دریائے چناب،راوی اور ستلج کے سیلابوں سے 4700 دیہات کے 45لاکھ شہری متاثر ہوئے ہیں جبکہ زراعت کا نقصان بہت بڑے پیمانے پر ہے۔ زرعی شعبہ جو پہلے ہی کسمپرسی کی حالت میں تھا‘ یہ سیلاب اس کیلئے نئی تباہیوں کی خبر لائے ہیں۔ چند روز قبل جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اعلان کیا کہ پانی اتر جائے گا تو تخمینہ لگاکر پنجاب حکومت نقصان پورا کرے گی۔ تاہم جو اصل کرنے کا کام ہے وہ نئے آبی ذخائر کی تعمیر ہے۔ 1920ءکے عشرے میں جب انگریز سرکار نے برصغیر میں واٹر مینجمنٹ کے منصوبوں پر جامع تحقیق کی تو کئی ایسے علاقوں کو ڈیموں اور جھیلوں کیلئے نامزد کیا جو ممکنہ سیلابوں سے بچا سکتے ہیں۔ انہی میں ایک علاقہ لاہور کے نواح میں شاہدرہ بھی تھا۔ ماہرین کا ماننا تھا راوی میں سیلاب کی صورت میں شاہدرہ کے ڈیم کی جانب پانی موڑ کر اس سیلابی ریلے کی شدت کم کی جا سکتی ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ رپورٹ آج بھی قابلِ عمل ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو اپنی توجہ اس جانب دینی چاہیے۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ نے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ پنجاب میں سیلابوں کے مستقل تدارک کیلئے 80 ڈیموں پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اگر پنجاب حکومت اس ایک سال میں چند ایک ڈیم تعمیر کر کے ہی صوبے کو آئندہ کی بارشوں سے محفوظ کر لے تو نہ صرف عوام کے دلوں میں گھر کر سکتی ہے بلکہ مریم نواز صاحبہ تاریخ میں اپنا نام شیر شاہ سوری جیسے حکمرانوں کی فہرست میں لکھوا سکتی ہیں جنہوں نے کم ترین مدت میں عوامی فلاح کے منصوبے مکمل کر کے اپنے اپنے علاقوں کو محفوظ بنایا۔

تازہ ترین