میرے ایک دوست جن کاقد پانچ فٹ اور وزن ڈھائی من ہے، اپنے دوستوں میں اپنی اس ’’قابل رشک‘‘ صحت کی بدولت خاصی چہ میگوئیوں کا باعث بنتے ہیں۔ دوست ان سے اتنی عمدہ صحت کا راز اکثر پوچھتے ہیں، مگر وہ اکثر ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں، گزشتہ روز ہم نے بھی انہیں خاصا ٹٹولا مگر وہ صاف طرح دے گئے، لیکن ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ حوصلہ نہیں ہاریں گے اور آج میدان مار کر ہی اٹھیں گے، چنانچہ بالآخر ہماری کوششیں رنگ لائیں اور ہم اس’’بھینسے‘‘ کو’’رنگ ‘‘میں لے آئے۔ یعنی ہمارے مسلسل سوالوں سے تنگ آکر انہوں نے اپنی پھولی ہوئی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ” میرے عزیز میری صحت کا راز صرف ایک چیز میں مضمر ہے اور وہ ہے ورزش اور صرف ورزش ! ‘‘ ان کی توند تو پھولی ہوئی تھی۔ یہ کلمات ادا کرتے ہوئے ان کا سانس بھی پھول گیا۔’’ ورزش ؟‘‘ ہم نے حیرت سے پوچھا۔’’ ہاں میرے عزیز ورزش ؟‘‘ انہوں نے پورے سکون سے جواب دیا۔مگر کون سی ورزش ؟ آپ صبح دوڑ لگاتے ہیں ؟ ’’ ارے نہیں بھائی یہ تو شرفا کا وتیرہ نہیں ، لوگ سمجھیں گے اچکا ہے کسی کی چیز اٹھا کربھاگ رہا ہے۔‘‘،’’ڈنڈ بیٹھکیں ؟ ‘‘،’’ لاحول ولا قوۃ-‘‘،’’یوگا؟‘‘،’’ استغفر الله ! ’’ویٹ لفٹنگ؟ ‘‘،’’نعوذ بالله ! ‘‘تو روزانہ چہل قدمی کرتے ہیں؟ ‘‘،’’ارے میاں لعنت بھیجتا ہوں اس چہل قدمی پر ! خدا نے سواری کس لیے دی ہے؟ ‘‘،’’ تو پھر آپ بھاڑ جھونکتے ہوں گے؟ ‘‘ ہم نے چڑ کر کہا۔ہا ہا ۔ ہا۔’’جیسے ان کی توند میں بھونچال سا آ گیا۔ اب تم راہ پر آئے ہو، میاں میری پہلی ورزش تو یہی ہے یعنی تم نے ایک مزے کی بات کی تو ہنسنے سے پیٹ کی ورزش ہو گئی ‘‘ اور اس کے بعد انہوں نے ایک بھر پو ر قہقہہ لگایا ۔ غالباً یہ ان کی طرف سے جبڑوں، پھیپھڑوں اور پیٹ کی ورزش تھی اور کورس میں تھی !تب یہ دوست ہم پر آہستہ آہستہ کھلے اور انہوں نے اس انکشاف سے ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ وہ تو ابنائے زمانہ کے برعکس اپنے جسم کے ایک ایک عضو کی علیحدہ علیحدہ ورزش کرتے ہیں۔میاں ! تم لوگ کیا جانو ! ورزش کیا ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنا بایاں ہاتھ ہمارے ہاتھ میںتھماتے ہوئے کہا۔ یہ ہاتھ دیکھ رہے ہو ؟ ’’ہم نے درخت کے تنے جیسے اس ہاتھ کو ہاتھ لگائے بغیر ایک نظر دیکھا اور کہا ہاں دیکھ رہے ہیں؟؟‘‘ اور انگلیاں بھی ؟‘‘ ، ’’ تو عزیزم انگلیوں کی ورزش علیحدہ ہے اور ہاتھ کی علیحدہ ! تم لوگ سگریٹ پیتے ہو اور آدھا سگریٹ جل جاتا ہے مگر تم ’’گل‘‘ نہیں جھاڑتے ! ’’مگر اس کا تعلق اس سارے مسئلے سے کیا ہے ؟‘‘،’’اسی سے تو ہے ! ‘‘ انہوں نے مسکرانے کی کوشش میں جبڑوں کی ورزش کرتے ہوئے کہا۔ میں ہر کش کے بعد گل جھاڑتا ہوں جس کیلئے درمیان والی دو انگلیوں اور انگوٹھے کو جھٹکنا پڑتا ہے یہ انگلیوں اور انگوٹھے کی ورزش ہے۔ دن میں بیسیوں دفعہ یہ ورزش کرتا ہوں، تم لوگ تو بہت سست الوجود ہواور حضرت ہاتھ کی ورزش کس طرح فرماتے ہیں ؟’’ یہ تو ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہے۔‘‘حضرت نے فرمایا ۔’’بس یوں ہے کہ دفتر میں افسران بالا کو آتے جاتے ہاتھ اٹھا کر سلام کرتا ہوں، یہ ورزش کی ورزش ہے اور اس سے بڑوں کے احترام کا فرض بھی پورا ہو جاتا ہے۔ ‘‘بیٹھے بٹھائے پیٹ کی ورزش ہو گئی، انگلیوں اور انگوٹھے کی ہو گئی، ہاتھ کی ہو گئی مگر پاؤں کی ورزش کیلئے تو آپ کو بہر حال اپنی جگہ سے ہلنا جلنا پڑتا ہو گا کچھ چلنا پھرنا پڑتا ہو گا ! ’’ارے نہیں میاں نہیں ! یہ روگ تو تمہی لوگوں نے پالے ہوئے ہیں۔ میرے پاس ایک موٹر سائیکل ہے، جسے اسٹارٹ کرنے کیلئے دن میں ہر بار پندرہ بیس ککیں لگانا پڑتی ہیں، بلکہ میں تو ورزش کو صحت انسانی کیلئے اس قدر ضروری سمجھتا ہوں کہ اہل محلہ کو بھی اس طرف راغب کرنے میں لگا رہتا ہوں، چنانچہ اکثر جب ضرورت پڑتی ہے تو موٹر سائیکل کو دھکا انہی سے لگواتا ہوں !پانچ فٹ قد اور ڈھائی من وزن والے اس دوست کی یہ باتیں ہم نے سنیں، تو جی چاہا کہ ان کے ہاتھ چوم لیں اور یوں ان کی اس مشقت کو خراج تحسین ادا کریں جو وہ خود کو اسمارٹ رکھنے کیلئے روا رکھتے ہیں، مگر ہم نے بوجوہ خود پر قابو پایا اور چلتے چلتے پوچھا کہ یا اخی ! اتنی بھر پور ورزش کے بعد تو ظاہر ہے آپ کو ڈائٹنگ وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑتی ہو گی، جس کی وبا ان دنوں عام ہے ! ’’ یہ تم نے بہت اچھا سوال کیا۔‘‘ انہوں نے پہلو بدلتے ہوئے غالباً پہلو دار ورزش کرتے ہوئے کہا ’’ مگر تم یہ سن کر حیران ہو گے کہ میں اس معاملے میں بھی بہت احتیاط برتتا ہوں میں ڈائٹنگ تو نہیں کرتا مگر میں نے اپنی خوراک بہت معتدل رکھی ہوئی ہے، یعنی صبح صرف دو انڈے چائے کے ایک کپ اور تین پراٹھوں کے ساتھ کھاتا ہوں، دو پہر کو دو چار روٹیاں اور گھر میں جو پکا ہو اس کے ساتھ کھا لیتا ہوں، میرا رات کا کھانا بھی اسی طرح ہلکا پھلکا ہی ہے ، کہیں کوئی پاؤ بھر چاول چند چپاتیاں اور ایک آدھی مرغی کا شوربہ۔ پھر رات کو سوتے وقت جگ میں جو تھوڑا بہت دودھ ہوتا ہے اس میں دو تین چھٹانک گھی کا تڑکا لگا کر پی لیتا ہوں۔ میں تو شاید اپنی خوراک اس سے بھی سادہ رکھتا مگر عزیزم باقی اعضائے جسمانی کی طرح آخر دانتوں کی ورزش بھی تو ضروری ہے۔ اب ذرا جاتے جاتے میری جیب میں ہاتھ ڈال کر میری سگریٹ کی ڈبیہ تو نکالنا گزشتہ دس منٹ سے میں انگلیوں کی ورزش سے غفلت برت رہا ہوں۔