چونکہ پاکستان کو فوری تھریٹ (انڈیا کی طرف سے) ہے۔ مگر سعودی عرب کو کسی ملک سے اس طرح کی تھریٹ نہیں۔ اس لیے یہ معاہدہ پاکستان کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس معاہدے کی بنیادیں بڑی واضح ہیں کہ اگر کوئی ملک ان دونوں ممالک کے خلاف جارحیت کرتا ہے تو سعودیہ اور پاکستان بیک وقت ایک ملک (ٹارگٹ) کی حیثیت سے جواب دیں گے۔ سعودیہ کے پاس وافر مالی وسائل اور پاکستان کے پاس مضبوط دفاعی افواج ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مالی وسائل کی کمی ہی تھی۔ اب اگر کوئی پاکستان پر حملہ آور ہونے کے بارے میں سوچے گا تو پہلی بات جو اس کے ذہن میں آئے گی وہ ہے ’’مضبوط بری، بحری اور ہوائی افواج کی نہ ختم ہونے والی مالی معاونت‘‘۔ ان حالات میں یقیناً انڈیا کی بڑھکیں ہوا ہو جائیں گی۔ لیکن مسائل اس معاہدے کی Implementation میں ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ انڈیا کے سعودیہ سے اچھے مراسم ہیں۔ ماضی قریب میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان انڈیا کا کامیاب دورہ کر چکے ہیں۔
سعودیہ کو ایران اور اسرائیل کی طرف سے تھریٹ موجود ہیں لیکن ماضی قریب میں چین کی ثالثی کی وجہ سے ایران اور سعودیہ میں ٹینشن تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ جب کہ اس معاہدے کے بعد تو سعودیہ کے لیے ایران کی طرف سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں رہا۔ موجودہ حالات میں ایران کبھی بھی پاکستان کی ناراضی مول نہیں لے گا اور سعودیہ کے خلاف بالکل کچھ نہیں کرے گا۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے وہ مشترکہ دشمن ہے اور بے اعتبار بھی ہے۔ مثلاً کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ثالثی کروانے والے ملک قطر پر اسرائیل حملہ آور ہو سکتا ہے۔ مگر اس نے قطر پر حملہ کر کے اپنی منافقت کا ثبوت مہیا کر دیا ہے۔ اسرائیل کی اس حرکت نے بھی سعودیہ کو پاک سعودیہ معاہدے کے لیے مزید راغب کیا ہوگا۔ چین بھی یقیناً اس پاک۔سعودیہ معاہدے پر خوش ہو گا کہ اس معاہدے سے قبل سعودیہ کا امریکہ کی طرف دیکھنا مجبوری تھی۔ تاہم اس معاہدے کے بعد خاصی حد تک سعودیہ اس مجبوری سے باہر نکل آیا ہے اس کا عملی نتیجہ سعودیہ کی چین سے قربت ہوگا۔ پاکستان کےچین کا قابل اعتماد دوست ہونے کی وجہ سے اس معاہدے نے خطے میں چین کے لیے خوشگوار ماحول بنا دیا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان Strategic Mutual Defence Agreement میں نیٹو کے آرٹیکل نمبر 5کی زبان استعمال ہوئی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ اگر ایک ملک پر حملہ ہوا تو دوسرا ملک بھی ایسے ہی جواب دےگا جیسے کہ اس پر حملہ ہو گیا ہے۔17 ستمبر 2025 بروز بدھ ہونے والا یہ معاہدہ اگرچہ پہلے سے زیر غور تھا مگر اسرائیل کے قطر پر حملے کے چند دن بعد اس پر دستخط نے بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ حقیقتاً ماضی میں عرب ممالک پاکستان کے ساتھ دوستی کے ساتھ ساتھ انڈیا کے لیے بھی سافٹ کارنر رکھتے تھے۔ مگر موجودہ صورت حال نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ زبانی کلامی دوستی کا دم بھرنا ایک طرف اور مشکل وقت میں دوست کے کام آنا دوسری طرف ہے۔ ایران پر مشکل وقت آیا تو پاکستان اس کے کاندھے سے کاندھا ملا کر ساتھ کھڑا رہا۔ جب کہ انڈیا اسرائیل کی ناراضی سے بچنے کے لیے ذرہ برابر ہلا جلا نہیں۔ اسی طرح اب اسرائیل کے قطر پر حملے نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ زبانی کلامی باتیں اور امریکہ کی گارنٹی صرف اس وقت تک ہے جب تک اسرائیل خاموش ہے۔ اگر اسرائیل حالات اپنے خلاف سمجھے گا تو ضرور Act کرے گا اور ہر حوالے سے امریکہ اس کا ساتھ ایسے ہی دے گا جیسے سلامتی کونسل کے ہر اجلاس میں اسرائیل کے خلاف بے ضرر سی قرارداد بھی ویٹو کر دیتا ہے۔ اس لیے عقل و دانش کا تقاضہ یہی تھا کہ سعودیہ کوئی ٹھوس، قابل اعتماد حل تلاش کرتا۔ بے انصافیاں کرنے کی وجہ سے اور فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کے دو ریاستی حل کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے اسرائیل ہر انصاف پسند اور اصول پسند ملک کا دشمن بن چکا ہے۔ اس لئے اسرائیل سے کسی وقت بھی منفی کارروائی کی توقع ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ ہر حوالے سے قابل ستائش ہے۔ بہتر ہے کہ وہ تمام ممالک جو اسرائیل کی وحشت اور بے انصافی کے خلاف ہیں انہیں اس دفاعی معاہدے میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے۔ انہیں احساس دلایا جائے کہ اسرائیل کی مرضی کے خلاف امریکہ کبھی نہیں جائے گا چاہے امریکہ کی حکومت ریپبلکن یا ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ہو۔ چونکہ اس طرح کی فضا چین کے حق میں جائے گی۔ اس لیے چین ماضی کی طرح Facilitateکر سکتا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کو انڈیا کیخلاف اپرہینڈ دینے کا سبب تو بنے گا ہی ، غزہ میں ظلم و ستم روکنے کا بھی واحد حل یہی ہے کہ اسی طرح انصاف پسند ممالک ایک دفاعی معاہدہ کے تحت متحد ہو جائیں۔ بہرحال سعودیہ اور پاکستان میں یہ گیم چینجر معاہدہ نہ صرف ان دوممالک کے حق میں ہے بلکہ پورے ایشیا کی سیاست کا رخ تبدیل کر کے ظلم و ستم کے خاتمے کی ابتدا ہے۔ اس لیے دونوں ممالک کی قیادت اس بابصیرت معاہدہ پر مبارکباد کی مستحق ہے۔