• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لگتا ہے اب اسلام آباد کو احساس ہوگیا ہے کہ بلوچستان میں بنیادی مسئلہ کرپشن ہے ایک بہترین آفیسر کی بلوچستان میں تعیناتی کا انتخاب جس نے کرپشن کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی ہے اس بات کی دلیل ہے کہ اب اسلام آباد کرپشن کی روک تھام میں سنجیدہ ہوگیا ہے۔ کرپشن جس نے عام آدمی کو ریاست سے بدظن کر رکھا ہے حکومتی ناکامیوں کے بارے میں عوامی غم و غصہ موجود ہے۔ بلوچستان کے عوام کو غربت، بے روزگاری، اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا سامنا ہے۔ جبکہ سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ حکومتی ملازمین بھی سیاست کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں بلوچستان میں بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات نے بھی یہ تاثر دیا ہے کہ وسائل کی لوٹ مار اور کرپشن صوبے کی بدحالی کی بڑی وجہ ہے۔ برے مقرر ریاست اور عوام میں مزید فاصلہ پیدا کرچکے ہیں۔

جس معاشرے میں سیاستدانوں کو اچھی حکمرانی کی بجائے صرف اپنے اچھے مستقبل اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہو وہاں کرپشن ڈیرہ جما لیتی ہے۔ جسکے نتیجے میں اہم نوعیت کے مشکل فیصلے کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ اور ایک بریک ڈاؤن جیسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اجتماعی نوعیت کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔ حکومت اور عوام کا سماجی تعلق زیروبم کا شکار ہو جاتا ہے۔ دنیا میں جس طرح اہلیت کو جانچنے کے معیارات ہیں اسی طرح نااہلیت کو بھی پرکھنے کے پیمانے ہونے چاہئیں۔ بلوچستان میں سیاست نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب سیاست نہیں ہوگی تو اچھی حکمرانی کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کا صرف سوچا ہی جا سکتا ہے۔ بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں دہائیوں سے اچھی حکمرانی دیکھنے کو نہیں ملی۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں چار ہزار ارب سے زائد خرچ کرنے کےباوجود عوام کی اکثریت آئین میں درج تعلیم، صحت، صاف پانی، بجلی اور امن و امان جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان بہت طویل و عریض اور دشوار گزار ہے جہاں یہ سب کچھ مہیا کرنے میں بہت وقت اور پیسہ چاہیے۔ لیکن جب یہی دلیل دینے والوں سے سوال کیا جائے کہ بلوچستان کادارالحکومت کوئٹہ تو دور نہیں نہ دشوار گزار ہے تو پھر وہاں روزگار کے مواقع کیوں نہیں۔ صاف پانی کیوں میسر نہیں۔ 500 ارب روپے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے پانی کی فراہمی کے نام پر 15 سالوں میںخرچ کیے ہیں لیکن آج باقی صوبے کو چھوڑ کر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں لوگ پانی کیلئے ٹینکروں کے محتاج ہیں۔ جہاں بیسیوں ارب خرچ کرنے کے باوجود دس گلیوں کا شہر کھنڈر نظر آتا ہو اس سے دور دراز علاقوں میں بدحالی کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس مرتبہ تو بری حکمرانی کے بھی پست ترین ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ موجودہ دور میں امن و امان کی صورتحال پچھلی تمام حکومتوں سے بری ہے پہلے مہینے میں کوئی ایک آدھ بار دہشت گردی کا واقعہ ہوتا تھا اب تو یہ روز کا معمول ہے ،لگتا ہے حکومت نے اسے اب روٹین کا معاملہ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ حکومتی رٹ صرف بجٹ ٹھکانے لگانے تک نظر آتی ہے بلوچستان کی سیاست کو فالج زدہ کہنا شاید مناسب ہو۔ فالج کی بیماری میں دماغ کو خون کی روانی کے متاثر ہونے سے آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے جسم کا کوئی حصہ کمزور یا ناکارہ ہو جاتا ہے۔ اس میں منہ ٹیڑھا بھی ہو سکتا ہے جسے لقوہ کہتے ہیں بازو یا ٹانگ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ بلوچستان کی سیاست کو غالباًفالج کا شدید اٹیک ہوا ہے جس میں منہ بھی ٹیڑھا ہے اور جسم بھی حرکت نہیں کر رہا۔ بے جان جسم ہے صرف کھایا پیا جا رہا ہے۔ باقی کام اور کوئی حرکت وغیرہ نہیں۔

کیا بلوچستان کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں یا یہ سب یونہی چلتا رہے گا؟یہ وہ سوال ہے جو ہراس بلوچستانی کے ذہن میں ہے جو امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور روزگار کے مواقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہے۔ہو سکتا ہے پاکستان کے پالیسی ساز اداروں میں اس پر سوچ بچار ہو رہی ہو لیکن عوام کو اس کا جواب نہیں مل رہا۔ امن و امان میں بہتری کیلئے موجودہ حکمت عملی میں تبدیلی لانے کی جتنی ضرورت اب ہے شاید اس سے پہلے اتنی کبھی نہ تھی۔ اور سب سے بڑھ کر اچھی حکمرانی دے کر ہی بلوچستان کے عوام کو قومی دھارے میں واپس لایا جا سکتا ہے۔

بلوچستان کا حکمراں طبقہ موجودہ حالات کا بینیفشری ہے۔ اگر حالات بہتری کی جانب جائیں گے تو ان کی اہمیت نہ رہے گی۔ اس لیے وہ تو چاہیں گے کہ تسلسل برقرار رہے۔ احتساب کرنے والے آنکھیں بند ہی رکھیں۔ لیکن اگر یہ سب یونہی چلتا رہا تو عوام کا ریاست کے ساتھ تعلق مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ حالیہ انتخابات میں شورش زدہ اضلاع میں تو عوامی نمائندگی یہاں سے وہاں کرنے کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی دس اسمبلی نشستیں ڈرائیوروں اور حاضر سروس کلرکوں کو دے کر اسلام آباد نے عام آدمی کوکیا پیغام دیا ہے ؟ اس صورتحال سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ بلوچستان کے ایک ضلع کے میر معتبر کے پاس ایک شخص آیا کہ اس کو سرکاری نوکری دی جائے وڈیرے نے کسی سے سفارش کی تو اسکو بالآخر بطور بیلدار بھرتی کیا گیا آرڈر کے بعد وہ اپنے ضلع میں پہنچا سب سے پہلے جا کر وہاں کی لیویز فورس کو بتایا کہ وہ آج سے تحصیلدار بن گیاہے تمام قیدی آزاد کر دیئے جائیں اس کے حکم کی تعمیل ہوئی جب یہ بات ڈپٹی کمشنرتک پہنچی تو ان کو حیرت ہوئی کہ تحصیلدار نےپوسٹ ہوکر ان سے ملاقات کئے بغیر چارج لے لیا ہے اور ساتھ ہی قیدی بھی آزاد کر دیئے ہیں تو غصے میں انہوں نے حکم دیا کہ تحصیلدار کی ان کے پاس حاضری لگائی جائےجب تحصیلدار پہنچا تو اس سے پوچھا گیا کہ آپ کے آرڈر کہاں سے ہوئے ہیں اور آپ نے مجھ سے ملاقات کےبغیر یہ چارج کس طرح سنبھالا؟ سادہ طبیعت شخص نے اپنے آرڈر کی کاپی ڈی سی کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے حکومت بلوچستان نے یہاں تحصیلدار تعینات کیا ہے جب ڈی سی نے ان کا آرڈر دیکھا تو انکی سادگی پہ ہنس پڑے اور ان کو کہا بھائی صاحب آپ تحصیلدار نہیں بیلدار بھرتی ہوئے ہیں آپ بیلچہ اٹھائیں اور اپنا کام شروع کریں۔ وفاق بلوچستان بیلداروں کے بجائے حقیقی تحصیلداروں کے ذریعے چلائے تو بہتری آئیگی۔

تازہ ترین