وائٹ ہاؤس نے امریکی ایچ ون بی ویزا فیس سے متعلق امریکی کامرس سیکریٹری ہاورڈ لوٹنک کے بیان پر وضاحت دے دی۔
ہاورڈ لوٹنک نے نئی ویزا فیس میں بڑے اضافے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایچ ون بی ویزا کے لیے 1 لاکھ ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔ یہ فیس سالانہ ادا کی جائے گی اور اس کا اطلاق نئے ویزا کے ساتھ ساتھ تجدید کے خواہشمند افراد پر بھی ہوگا۔
تاہم اب وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے وضاحت پیش کی ہے کہ نئی ایچ ون بی ویزا پالیسی کے لیے 1 لاکھ ڈالر کی فیس صرف نئے درخواست دہندگان پر عائد کی جائے گی اور یہ صرف ایک بار وصول کی جائے گی۔
وائٹ ہاوس کے مطابق اس پالیسی کا اطلاق موجودہ ایچ ون بی ویزا کے حامل افراد یا تجدید کے خواہشمند افراد پر نہیں ہوگا۔ ایسے افراد جن کے پاس پہلے سے ایچ ون بی ویزا موجود ہے وہ امریکا میں دوبارہ اسی ویزا پر داخل ہوسکیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایچ ون بی ویزا پالیسی سے متعلق نیا ایگزیکٹو آرڈر آج سے نافذ ہوگیا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے ساتھ واپس شیر و شکر نظر آ رہے ہیں، لیکن وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والا نیا ایگزیکٹو آرڈر ایک بالکل مختلف کہانی بیان کر رہا ہے۔
مذکورہ نئے آرڈر سے بھارت کی آئی ٹی انڈسٹری کے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
چین اور پاکستان کے ٹیک پروفیشنلز بھی ایچ ون بی ویزا پالیسی سے متاثرہوں گے۔ ایچ ون بی ویزوں میں بھارت کا سب سے زیادہ 71 فیصد حصہ ہے۔ چین 11.7 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے اور پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔
پاکستان کے آئی ٹی، انجینئرنگ اور تعلیم کے شعبوں میں اسپانسرشپ مہنگی ہوسکتی ہے تاہم پاکستان کے لیے یہ پالیسی اتنی بڑی نہیں جتنی بھارت کے لیے ہے، لیکن پھر بھی آئی ٹی، انجینئرنگ اور تعلیم کے شعبوں میں اسپانسرشپ مزید مہنگی اور مشکل ہو جائے گی۔
اس حوالے سے صرف وہی پاکستانی پروفیشنلز کامیاب ہو سکیں گے جنہیں اعلیٰ ہنرمند اور ضروری ثابت کیا جاسکے۔ اسپتال اور ہیلتھ سسٹمز کے لیے قومی مفاد کی چھوٹ پاکستانی ڈاکٹروں اور نرسز کے لیے کچھ ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔
اس اقدام سے امریکی شہریوں کو کم اجرت والے غیر ملکی مزدوروں کا متبادل بنانا ہے۔