• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا

سپریم کورٹ : فائل فوٹو
سپریم کورٹ : فائل فوٹو 

سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ 55 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر نے تحریر کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے سپریم کورٹ میں ججوں کی ٹرانسفر اور سینیارٹی کو چیلنج کیا تھا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت کو ہائیکورٹ کے ایک جج کو دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے، یہ اختیار اپنی نوعیت میں آزاد ہے، تاہم کچھ حفاظتی اقدامات اور ضمانتیں بھی شامل ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت کے یہ اختیارات آئین کے کسی اور آرٹیکل پر منحصر نہیں ہیں، بنیادی شرط یہ ہے جج کو ہائی کورٹ منتقل کرنے سے جج کی رضامندی لینا ضروری ہے، صدر مملکت چیف جسٹس پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت کے پابند ہیں، ہنگامی حالات میں ذیلی آرٹیکل (3) کے تحت ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد عارضی بڑھائی جا سکے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس کسی دوسری ہائی کورٹ کے جج کو مقررہ مدت کے لیے بلا سکتا ہے، یہ عمل بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب بلائے جانے والے جج کی رضامندی حاصل ہو، صدر مملکت کی جانب سے منظوری چیف جسٹس پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد دی جائے۔

آئین سازوں کے دیے گئے صدر مملکت کے اختیارات ختم نہیں کیے جا سکتے، خالی آسامیاں تبادلے کے اختیار پر اثر انداز نہیں ہوتیں، جج کا تبادلہ کسی طور نئی تقرری قرار نہیں دیا جا سکتا، آرٹیکل 200 کے تحت تبادلہ، آرٹیکل 175-اے کی تقرری سے الگ تصور کیا جائے گا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جج ٹرانسفر کیس میں ہائیکورٹ کے 5 ججوں کےخط پر دلائل دیے گئے، ججوں کے خط کا کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، ہمارا کوئی تبصرہ یا ریمارکس زیر التوا مقدمے کو متاثر کر سکتا ہے، الزام لگایا گیا متعلقہ چیف جسٹس اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات پر عمل کرنے کیلئے مائل نظر آتے ہیں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ بطور آئینی بینچ ہم اپنے دائرہ کار تک محدود رہنا چاہتے ہیں، مشاورت کرنے والوں پر عائد الزامات میں الجھنا نہیں چاہتے، ایسے الزامات آسانی سے ہر اس جج پر لگائے جاسکتے ہیں جو آرٹیکل 200 کے تحت ٹرانسفر ہوکر آئے۔

قومی خبریں سے مزید