• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ٹرمپ ایک غیرروایتی صدر ہیں جو اس سے پہلے طے شدہ پروٹوکولز اور سیاسی روایات کو نہیں مانتے۔ وہ ایک سیماب صفت شخص ہیں جن کے بارے میں کوئی شخص پیشین گوئی نہیں کر سکتا کہ وہ کیا کرے گا۔ اسلئے ان کے بیانات اور اقدامات کے بارے میں ہر ملک تشویش میں مبتلا رہتا ہے جب وہ کسی کی تعریف کرتےہیں تو زمین و آسمان کے قلابے ملادیتےہیں۔ جیسے وہ کسی وقت میں نریندر مودی اور عمران خان کے بارے میں کہا کرتے تھے اور آج کل ہمارے گن گا رہے ہیں لیکن جب وہ کسی کی مخالفت کرنے پر آتےہیں تو بھی کسی سیاسی روایت کا احترام نہیں کرتے جیسا کہ انہوںنے یوکرین کے صدر زیلنسکی کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کھلے عام جھڑک دیا تھا اور اس کے کپڑوں پر نا روا تنقید کی تھی ۔انکےاس رویےنے ان کے دوستوں کو خاص طور پر مایوس کیا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ امریکی صدر جو وزیر اعظم مودی کو اپنا سب سے بہترین دوست گردانتا تھا اور دونوں ایک دوسرے کی انتخابی مہم میں بھی بلاواسطہ طور پر حصہ لیتے رہے ہیں جبکہ امریکہ نے انڈیا کو ایران کی چا ہ بہار بندرگاہ اور روسی تیل کی خریداری کے حوالے سے جو خصوصی استثنیٰ دیا ہوا تھا صدر ٹرمپ وہ بھی واپس لے لے گا ۔اس کے علاوہ انڈیا کے وزیراعظم کو شرمندہ کرنے کیلئے صدر ٹرمپ بار بار اپنی ان کوششوں کا ذکر کرتےہیں جو انہوں نے پاک انڈیا ایٹمی جنگ رکوانے کیلئے کی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق بھارت کی تردید کے باوجود ٹرمپ نے تقریبا 30سے زیادہ مرتبہ اس جنگ بندی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اپنے ملکی اور عالمی مفادات سے زیادہ عالمی سطح پر طاقتور ترین صدر کو اپنی نام نہاد امن کوششوں کے صلے میں ذاتی نوبل پرائز عزیز ہے۔ اب ایسے شخص کے نوبل پرائز کی کیا حیثیت ہوگی ؟۔صدر ٹرمپ مدبر سے زیادہ دنیا کی سیاسی اسٹیج پر ایک اداکار کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں جو پاپولسٹ لیڈروں کی ایک بڑی پہچان ہے۔ عام طور پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ پاپولسٹ اور مدبر سیاستدان میں کیا فرق ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو فرق ایک کلاسیکل گائیک اور پاپ سنگر میں ہوتا ہے پاپ سنگر کی مقبولیت تیزی سے ہوتی ہے لیکن وقتی ہوتی ہے اور کلاسیکل گائیک کی شہرت آہستہ مگر دائمی ہوتی ہے۔ کلاسیکل گائیک موسیقی کے باریک ترین اسرار و رموز جانتا ہے جبکہ باپ سنگر کا زیادہ دارومدار موسیقی سے زیادہ آوازوں کے شور شرابے میں ہوتا ہے ۔دنیا میں آج کل ایسے پاپ سنگر یا پاپولسٹ سیاست دانوں کی بھرمار ہے جو سیاست کے نام پر شرارت اور تبدیلی کے نام پر انتشار کی وجہ سے مقبول ہیں ۔یہ بنیادی طور پر فاشسٹ یعنی آمرانہ سوچ کے مالک ہوتے ہیں جو اپنی قوم کو اخلاقی مالی اور سیاسی لحاظ سے دیوالیہ کر کے یا تو عوام کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں یا خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتےہیں۔ اس کی کلاسیکل مثالیں ایڈولف ہٹلر اور مسولینی کی ہے جو کبھی خود کو عقلِ کل کا مالک سمجھتے تھے لیکن درحقیقت ان کی ذہنی قابلیت کی سطح عام آدمی سے بھی کم تھی۔

ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ آتے ہی چند دنوں میں نہ صرف یوکرین کی جنگ رکوا دیں گے بلکہ مڈل ایسٹ میں اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ بھی کر یں گے اور دنیا کے ان ممالک میں بھی کشیدگی کو ختم کر دیں گے جہاں کسی کی نظر نہیں گئی لیکن ہوا اس کے برعکس یہ جنگیں رکنے کی بجائے اور پھیل گئیں ۔اس سے مجھے بانی پی ٹی آئی کے وہ بیانات یاد آرہے ہیں جو انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے دیے تھے کہ وہ تین ماہ کے اندر اندر کرپشن ختم کر دیں گے ،گورنر ہاؤسوں کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کر دیں گے، 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹ دیں گے لیکن چار سال تک ان سب پروگراموں کا آغاز بھی نہ ہو سکا اور موصوف پاکستان کو اخلاقی معاشی اور سیاسی لحاظ سے کئی عشرے پیچھے دھکیل کر تشریف لے گئے ۔ان کے دور میں کرپشن مہنگائی اور بےروزگاری اس حد تک بڑھ گئی کہ اب تک اس پر قابو نہیں پایا جا سکا۔

صدر ٹرمپ نے مرشد بھائی جان اور اس کے حواریوں کو بھی شدید مایوس کیا جو یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں آ کر اپنا پہلا بیان ان کے مرشد کی رہائی اور اقتدار میں واپسی کا دیں گے لیکن ٹرمپ بھی ان کے مرشد سے کم پائے کے لیڈر نہیں نوبل پرائز کے چکر میں وہ یہ اقدام اس طرح بھول گئےجس طرح ان کا مرشداپنی مرشد کیلئے باقی سب کچھ بھول گیا تھا ۔لہذا شہباز شریف صاحب کو ٹرمپ کے ساتھ تین ملاقاتوں پر خوش نہیں ہونا چاہئے اور نہ یہ سوچنا چاہئے کہ وہ مرشد کو ہمیشہ کیلئے بھول گئے ہیں ان کو مرشد کی ضرورت کبھی بھی پڑ سکتی ہے ۔آج کا شعر

ہمیں جو لوٹ جائے پہلے رہبر اس کو کہتے ہیں

لٹا کر اپنا سب کچھ پھر مقدر اس کو کہتے ہیں

تازہ ترین