• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ سولر انرجی پروگرام، اربوں کی بے ضابطگیاں، شفافیت پر سولات اٹھنے لگے

(شہزاد اقبال) سندھ سولر انرجی پروگرام میں اربوں کی بے ضابطگیاں، شفافیت ہر سوالات اٹھنے لگے، پروگرام نیا پاکستان میں منصوبے میں بے ضابطگیوں، جعلی امپورٹ دستاویزات اور زائد قیمتوں پر خریداری کے متعلق اہم حقائق۔جبکہ وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ سولر انرجی پروگرام میں کوئی بے ضابطگی نہیں، جعلی دستاویزات بنا کر غلط امپورٹ دکھائی گئی ہے تو انکوائَری کرکے معاملہ سامنے لائینگے۔ جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان کے میزبان شہزاد اقبال پیپلزپارٹی کےفلیگ شپ منصوبے سندھ سولر انرجی پراجیکٹ میں مبینہ بے ضابطگیوں اور ٹھیکوں میں شفافیت کو لے کر سنگین سوالات سامنے آگئے۔ ورلڈبینک کی 28 ارب کی فنڈنگ والے منصوبے کے پہلے فیز میں دولاکھ سولر ہوم سسٹمز کی تقسیم کا منصوبہ تھا۔ غیرملکی کمپنی نے فی یونٹ سولر کٹ کی لاگت 151 ڈالر بتائی مگر امپورٹ ڈاکومینٹس میں اصل قیمت 50 ڈالر سے کم ہونے کا انکشاف۔ غیرملکی کمپنی نے سولر ڈی سی فین بھی امپورٹ کرنا تھا مگر امپورٹ ڈاکومینٹس میں ردوبدل کرکے پاکستان میں تیار پنکھے تقسیم کیے گئے اور مبینہ جعلی امپورٹ دستاویزات پر ڈیوٹیز اور ٹیکسز بھی claim کیے گئے۔ اینکر پرسن شہزاد اقبال اور ایگزیکٹیو پروڈیوسر سید حسام احمد وارثی پروگرام نیا پاکستان میں پہلی بار سندھ سولر منصوبے میں مبینہ بےضابطگیوں سے جڑے اہم حقائق سامنے لےآئے۔جبکہ پروگرام میں شریک صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے اس تحقیقاتی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے شو میں دعویٰ کیا کہ سولر انرجی پروگرام میں کوئی بے ضابطگی نہیں ہے۔ اور متعلقہ دستاویزات فراہم کی جائیں گی۔ پروگرام میں جب ان سے سوال ہوا کہ کیا کمپنی کی جانب سے کسٹمز کو دی گئی کمرشل انوائس میں سولر یونٹ کی کم قیمت کا اندراج کیا انڈر انوائسنگ ہے، تو ناصر شاہ نے جواب دیا کہ اگر انڈر انوائسنگ ہوئی ہے تو یہ نجی کمپنی نے کی ہے ۔ پنکھوں کی درآمد سے متعلق ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اگر جعلی دستاویزات بنا کر غلط امپورٹ دکھائی گئی ہے تو سندھ حکومت انکوائَری کرکے معاملہ سامنے لے آئی گی۔واضح رہے کہ سندھ سولر انرجی پراجیکٹ وہ منصوبہ ہے جس کا اعلان بلاول بھٹو زرداری نے اپنی الیکشن مہم میں کیا تھا اگر وہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو ملک میں 300 یونٹ فری بجلی دیں گے، بلال بھٹو کا وزیراعظم بننے کا خواب تو پورا نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے وہ پورے ملک میں تو 300یونٹ بجلی مفت دینے کے وعدے پر عمل نہیں کرسکے مگر سندھ حکومت نے پچھلے ایک سال سے کراچی سمیت صوبے کے 30اضلاع میں ہزاروں مستحق گھرانوں کو سولر ہوم سسٹمز دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔سندھ حکومت کے منصوبے کے پہلے فیز میں ورلڈ بینک سے قرض لے کر تقریبا دو لاکھ گھروں کو سولر سسٹمز دینے کا دعوی کیا جارہا ہے، مگر مجموعی طور پر 28ارب روپے مالیت کے اس منصوبے کے پہلے فیز میں غیرشفافیت اور تاخیر سمیت دیگر اہم سوالات اور اعتراضات اٹھ رہے ہیں ۔ اس حوالے سے سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں اس منصوبے کو لے کر کئی اہم سوالات اٹھائے گئے تھے۔قائمہ کمیٹی میں اٹھنے والے سوالوں کے بعد جب ہم اس معاملے کی جانچ کرنا شروع کی، اور منصوبے کی باریکیوں کو جاننے کیلیے تحقیق شروع کی تو منصوبے میں اربوں روپے کی مبینہ بےضابطگیوں، ٹھیکوں میں غیرشفافیت اور دستاویزی ریکارڈز میں ردوبدل کے مزید کئی معاملات سامنے آئے۔واضح رہے کہ سندھ حکومت نے پچھلے سال جولائی میں کم آمدن والے آف گرڈ یا 100یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے گھرانوں کو سولر ہوم سسٹمز فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اور ایک مہینے میں دو لاکھ گھرانوں کو سولر سسٹم فراہم کرنے کا ہدف رکھا تھا ۔یاد رہے کہ سندھ حکومت سولر انرجی پاور پراجیکٹ کو فلیگ شپ منصوبہ قرار دیتی ہے۔ اور اس پروگرام کے تحت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل گھرانوں کو سولر ہوم سسٹمز فراہم کیے جارہے ہیں، جس میں ایک سولر پینل، بیٹری، ایک ڈی سی پنکھا، تین ایل ای ڈی بلب اور موبائل فون چارج کرنے کی سہولت شامل ہے۔اہم بات یہ ہے کہ سندھ حکومت نے ایک مکمل سولر ہوم یونٹ کی تخمینی لاگت تقریبا 208ڈالر یعنی تقریبا55ہزار روپے بتائی ہے، اور اس منصوبہ کیلیے سندھ حکومت کو ورلڈبینک کی جانب سے 10کروڑ ڈالرز یعنی تقریبا 28ارب روپے کی فنڈنگ حاصل ہے، اور سندھ حکومت کا دعوی ہے کہ اس منصوبے کی نگرانی خود ورلڈ بینک کررہا ہے، مگر اس کے باوجود منصوبے پر سوالات اور اعتراضات سامنے آرہے ہیں ۔واضح رہے کہ رواں سال مئی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور میں چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیرصدارت ایک اجلاس میں سولر سسٹمز کی تقسیم میں غیرشفافیت اور منصوبے پر عمل درآمد میں تاخیر کو لے کر سوالات اٹھائے گئے، جس کے ایک ماہ بعد 23جون کو سندھ حکومت کے انرجی ڈیپارٹمنٹ نے سندھ سولر انرجی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر محفوظ احمد قاٰضی کو خط لکھ کر سندھ سولر انرجی پراجیکٹ کے سات افسران کو انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی، مگر اس انکوائری کا بھی ابھی تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آسکا ۔پروگرام نیا پاکستان نے بھی معاملے کی تحقیقات کے دوران پراجیکٹ ڈائریکٹر محفوظ قاضی کا موقف جاننے کیلیے رابطہ کیا، مگر انہوں نے سرکاری ملازمت کی وجہ سے معاملے پر آن ریکارڈ تبصرے یا اپنا موقف دینے سے گریز کیا ۔اہم بات یہ ہے کہ سینیٹ کمیٹی میں منصوبے پر عملدرآمد میں تاخیر، این جی اوز کے کردار اور بی آئی ایس پی کے تحت تقسیم کو لے کر تو سوالات اٹھائے گئے ہیں مگر معاملہ صرف منصوبے میں تاخیر یا سولر سسٹمز کی تقسیم میں غیرشفافیت کا نہیں ہے، بلکہ پروگرام نیا پاکستان میں پیش کیے گئے انکشافات اور دستاویزات کے مطابق معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ سندھ حکومت کا دعوی ہے کہ اس منصوبے کے فیز ون کے تحت دو لاکھ سولر ہوم سسٹمز لوگوں میں تقسیم کیے جائیں گے، جس کی فی یونٹ قیمت 151.31ڈالرز ہے، جن میں اگر 56.3ڈالرز کے ٹیکسز شامل کرلیے جائیں تو یہ تقریبا 208ڈالر یعنی 55ہزار روپے فی یونٹ بنتی ہے۔ اور اس منصوبے پر ورلڈ بینک سے قرضہ لیا گیا ہے، جو بالآخر عوام کی جیبوں سے ہی واپس کیا جائے گا۔پروگرام نیا پاکستان کے پاس دستیاب دستاویزی شواہد موجود سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ حکومت عوام کو جو سولر سسٹمز فراہم کررہی ہے۔ اس کی مبینہ طور پر اصل قیمت، 151ڈالر سے بہت کم ہے، یعنی جتنی سولر کٹس کی اصل قیمت ہے اس سے زیادہ ورلڈ بینک سے قرض لینے کا معاملہ سامنے آرہا ہے۔نیا پاکستان کو حاصل دستاویزات کے مطابق، quotation ڈاکومینٹ میں نجی کمپنی نے سندھ حکومت کو سولر ہوم سسٹم کی فی یونٹ 112.44ڈالر کی قیمت quoteکی تھی ۔ جو ٹیکسز اور ڈیوٹیز ملا کر 151.79ڈالر بنتی ہے۔ جس میں کنٹرولر، بیٹری، ایل ای ڈی لائٹ، ایل ای ڈی کیبل، پی وی کیبل، ماونٹنگ اسٹرکچر سمیت موبائل چارجنگ کیلیے ایک یو ایس بی کیبل شامل ہے۔مگر اسی کمپنی کی کمرشل انوائس ، جو پروگرام نیا پاکستان کو دستیاب ہے، اس میں اس سولر ہوم سسٹم کی قیمت quoteکی گئی 112ڈالر کی قیمت سے بہت کم ہے۔ اس ڈاکومینٹ میں اس کمپنی نے 24اکتوبر 2024کو 20ہزار808سولر ہوم سسٹم کٹس امپورٹ کی ہیں اور ان کی قیمت 112ڈالر نہیں بلکہ صرف 23.4ڈالر فی یونٹ ہے۔ جو کہ یعنی اصل قیمت سے تقریبا پانچ گنا کم ہے۔ جبکہ اسی نجی کمپنی کے بل آف انٹری کی دستاویز کے مطابق، غیرملکی نجی کمپنی نے پاکستان میں مقامی کمپنی کو 23.4ڈالر فی یونٹ کے حساب سے 20ہزار 808کٹس ایکسپورٹ کیں۔اس لیے سوال یہ ہے کہ چین سے درآمد ایک سولر کٹ کی اصل قیمت اور تخمینہ لگائی گئی قیمت میں اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟ اس حوالے سے پروگرام نیا پاکستان نے اس غیرملکی کمپنی سے اس کا موقف جاننے کیلیے رابطہ کیا ۔ مگر بار بار رابطے کے باوجود اس غیرملکی کمپنی نے اپنا موقف نہیں دیا۔یاد رہے کہ سندھ حکومت نے اس سولر کٹ کے ساتھ امپورٹڈ سولر ڈی سی پنکھا دینے کا بھی دعوی کیا تھا، مگر پروگرام کو دستیاب دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو پنکھے عوام میں تقسیم کیے جارہے ہیں وہ امپورٹ نہیں کیے گئے بلکہ یہ پنکھے پاکستان میں ہی خریدے گئے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ مبینہ طور پر جعلی ڈاکومینٹ بناکر انہی پنکھوں کی امپورٹ دکھائی گئی جس کے ذریعے بعد میں سندھ حکومت سے جعلی ڈیوٹیز اور ٹیکسز بھی کلیم کیے گئے۔اس حوالے سے پروگرام میں دکھائی گئی دستاویزات میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کسٹمز کے بل آف اینٹری کے ڈاکیومنٹ کے کالم نمبر 42میں سولر ڈی سی فین کی امپورٹ کا ذکر موجود ہے۔ جس کے مطابق غیرملکی کمپنی نے 25ہزار 300پنکھے 23.5ڈالر فی یونٹ کے حساب سے اپنے پاکستانی ایجنٹ کو ایکسپورٹ کیے ۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کمپنی کے پنکھے تقسیم کیے گئے ہیں، اس کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق،، وہ یہ پنکھے پاکستان میں تیار کرتی ہے۔ اور پاکستان سے بیرون ممالک ایکسپورٹ کرتی ہے۔ جس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ پنکھے پاکستان میں تیار کیے جاتے ہیں اور یہ پنکھے چین سے درآمد نہیں کیے گئے تو اس کا امپورٹ ڈاکومینٹ کیسے موجود ہے؟ہمارے ذرائع کے مطابق، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ڈاکومینٹ جعلی ہے۔ کیوں کہ ایک مشین نمبر پر دو بل آف اینٹریز موجود ہیں۔یعنی درامد کردہ پنکھوں کا کا مشین نمبر KPPI- HC – 32166درج ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی مشین نمبر KPPI- HC – 32166 پر ایک اور بل آف اینٹری موجود ہے ۔ جس میں lithium battriesامپورٹ کی گئی ہیں۔ اور مبینہ طور پر یہ سب اس لیے کیا گیا کہ ڈی سی فین کے جعلی امپورٹ ڈاکومینٹ کی بنیاد پر حکومت سے کسٹم ڈیوٹیز اور ٹیکسز بھی claimکیے جاسکیں۔اس کے علاوہ پروگرام میں کسٹم کلیئرنگ ایجنسی کا ڈاکومینٹ بھی منظرعام پر لایا گیا، جس میں سولر ڈی سی فین کی امپورٹ کے عوض کسٹم ڈیوٹی اور ایکسائز کے کلیم کا ذکر کیا گیا ہے۔جبکہ یہ سولر ڈی سی فین کبھی امپورٹ کیے ہی نہیں گئے ۔ مگر اس ڈاکومینٹ کی بنیاد پر کمپنی نے کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسز claimکیے ہیں۔ یعنی مبینہ طور پر جعلی بل آف اینٹری کے مطابق، 25 ہزار 300 پنکھوں پر 18ڈالر ڈیوٹیز اور ٹیکسز کے حساب سے تقریبا 12کروڑ 70لاکھ روپے claimکیے گئے۔اس کے علاوہ ۔ سندھ حکومت نے غیرملکی کمپنی کی بڈ کے مطابق، ڈیوٹی اور ٹیکسز کے بغیر 151ڈالر فی یونٹ کا معاہدہ کیا ۔ اور معاہدے کی بنیاد پر ورلڈ بینک سے قرض لیا گیا۔مگر دستاویزات کے مطابق، ٹھیکا حاصل کرنے والی کمپنی نے سولر ہومز سسٹم صرف23.4ڈالر فی یونٹ کے حساب سے ایکسپورٹ کیا۔اسی طرح، پنکھے کی 23.5ڈالر میں امپورٹ دکھائی گئی ۔یعنی پوری سولر کٹ کی کل مالیت 50ڈالر سے بھی کم تھی ۔ مگر سندھ حکومت نے غیرملکی کمپنی سے 151ڈالر کی لاگت کا معاہدہ کیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکسز کے بغیر دو لاکھ سولر کٹس کی کل قیمت تقریبا ساڑھے8ارب روپے تھی۔ اس میں اگر سولر ہوم سسٹمز کی تقسیم کیلیے این جی اوز کو دیے گئے تقریبا ایک ارب روپے بھی شامل کرلیں تو منصوبے پر بغیر ڈیوٹیز اور ٹیکسز کے کل لاگت ساڑھے 9ارب روپے بنتی ہے۔اس لیے اب سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت جو قیمت بتارہی ہے۔ اور جو امپورٹ کے دستیاب دستاویزات میں 100ڈالر فی یونٹ تک کا فرق کیوں ہے؟ اس فرق کے حساب سے دیکھا جائے تو فیز ون کے تحت ، دو لاکھ سولر یونٹس پر 100ڈالرز کے فرق کا مطلب 5ارب 60کروڑ روپے ہے۔ اور اگر اسی طرح ،، دو لاکھ پنکھوں پر جعلی ڈیوٹیز کلیم کی جائے تو وہ تقریبا ایک ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔

اہم خبریں سے مزید