• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلمانوں کا اور خاص طور پر پاکستانیوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اکثرو بیشتر وقت کے گزرنے کے بعد ہی کسی چیز کی اہمیت کا احساس کرتے ہیں۔ وطن عزیزپاکستان کی بات کریں تو سیاسی بحران باہمی سیاسی اختلافات کے علاوہ دو صوبوں میں دہشت گردی کی وجہ سے ملک کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ منفی رجحانات اوورسیز سطح پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کے درمیان سیاسی کشمکش سے ملک کا وقار مجروح ہوتا ہے اور کئی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں، جنہیں اوورسیز پاکستانی محسوس کرتے ہیں۔لہٰذا ملک میں سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ مستقبل میں پاکستان امت مسلمہ میں اہم کردار ادا کرنے کی طرف بڑھ رہا ۔پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ اس کی واضح مثال ہے۔ علامہ اقبال نے بار بار کہا کہ’’قومی زندگی میں وقت کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، قومیں وقت ضائع کر کے اپنے آپ کو دفن کر لیتی ہیں۔‘‘ان کا تصورِ’’خودی‘‘یہی ہے کہ مسلمان اپنی اصل طاقت کو پہچانیں اور وقت پر اقدام کریں، ورنہ بعد میں پچھتانا کچھ نہیں بدل سکتا۔ پاکستان کے حوالے سے بھی یہی رجحان بار بار دکھائی دیتا ہے: قومی اتحاد کے مواقع ضائع کرنا اور بعد میں پچھتانا، تعلیم، معیشت اور سائنسی ترقی پر بر وقت توجہ نہ دینا، خارجہ پالیسی یا دفاعی معاہدوں میں دیر سے فیصلے کرنا۔یہ سب کچھ اس حقیقت کی نشانی ہے کہ ہم ’’پیش بندی‘‘کی بجائے’’بعد از وقت ردِعمل‘‘پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ یہی اصل المیہ ہے کہ ہم وقت پر فیصلے نہیں کرتے، بعد میں سوچتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ رویہ امت مسلمہ کی کمزوری کی بڑی وجہ ہے، اور اس کا حل یہی ہے کہ مسلمان اپنی’’خودی’’ اور’’بصیرت‘‘ کو زندہ کریں تاکہ وقت آنے سے پہلے اقدام کریں، نہ کہ بعد میں پچھتائیں۔جہاںتک پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کی بات ہے تو اس کو اگر امہ کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے توایسے موضوعات بھی علامہ اقبال کے کلام میں موجود ہیں، جنہیں موجودہ تعلقات اور معاہدوں کے حوالے سے بطور فکری بنیاد سمجھا جا سکتا ہے۔مثلاً، علامہ اقبال نے مسلمانوں کی مشترکہ شناخت، اتحاد، اخلاقی اور روحانی بہبود پر بار بار زور دیا ہے، جیسا کہ’’از حجاز، چین و افرہم ماشبنم یک صبح خندانیم ما” علامہ اقبال کہتے ہیں کہ چاہے مسلم علاقے حجاز ہوں یا چین یا ایران، ساری اقوام یکساں صبح کی شاداب شبنم کی طرح ہیں۔ یہ تصور بالواسطہ موجودہ معاہدے جیسے عزائم کے منطقی پیش خیمہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ مسلمان ممالک کو باہمی تعاون اور اتحاد کی ضرورت ہے۔دینی اور روحانی مراکز جیسے مکہ و مدینہ کی اہمیت پر علامہ اقبال نے گہرے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ان مقدس مقامات کی برقراری اور مسلمانوں کی ان سے وابستگی، تعاون اور احترام معاہدے کی اخلاقی بنیاد ہو سکتی ہے۔اصلاح اور اسلامی تجدید کے نظریے میں، علامہ اقبال نے مسلمانوں کی حالت زار کی اصلاح، تجدید ِفکر اور عملی قدم اٹھانے پر زور دیا ہے۔ ان خیالات سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ مسلمان ممالک کو صرف جذباتی یا معنوی اتحاد نہیں بلکہ عملی اتحاد، تعاون اور ذمہ داری کے معاہدے کرنے کی ضرورت ہے، جسکی طرف ہم اب بڑھ رہے ہیں۔موجودہ معاہدے سیاسی، سفارتی اور دفاعی نوعیت کے ہیں، جو ریاستوں کے مابین حقوق و فرائض، مشترکہ دفاع، امن و سلامتی وغیرہ طے کرتے ہیں۔کیا علامہ اقبال کے کلام میں سعودی عرب اور پاکستان کے موجودہ معاہدے کی براہِ راست توقع یا نشاندہی ہے؟ تو جواب ہے ،نہیں۔لیکن اگر سوال یہ ہو کہ علامہ اقبال کے فکری اصول اور نظریات موجودہ معاہدے کی اخلاقی اور فکری اساس بن سکتے ہیں؟ تو ہاں، بہت حد تک بن سکتے ہیں، کیونکہ ان کے کلام میں امت مسلمہ کا اتحاد، دینی اور روحانی مرکزیت، مشترکہ ذمہ داری اور مسلمانوں کے مابین تعاون کی اہمیت بار بار ملتی ہے، جو معاہدات جیسے اقدامات کا نظریاتی پسِ منظر فراہم کرتے ہیں۔علامہ اقبال کے مخصوص اشعار یا نثر ایسے ہیں جو تقریباً دفاعی معاہدے، ریاستوں کے مابین امن و سلامتی، یا دشمن کے خلاف باہمی تعاون کے موضوع سے میل کھاتے ہیں۔ نظم’’طلوع اسلام‘‘میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کی دوبارہ بیداری، مغرب کے طوفانوں سے نبرد آزما ہونے، اپنی روحانی و سیاسی قوتوں کو بحال کرنے کی تلقین کی ہے، کہ مسلمان اپنے اندرونی اتحاد اور عزم کے ذریعے بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ نظم ’’ساقی نامہ‘‘ میں بھی علامہ اقبال مسلمانوں کی سیاسی اور ذہنی تجدید پر زور دیتے ہیں، اور’’نئی بیداری‘‘کی خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ امت مسلمہ اپنی تقدیر کی صورت بدل ڈالے۔ خضر رح نظم حکومتوں کی حالت، مسلمانوں کی زوال پذیری اور ان کی بحالی کے امکانات پر مبنی ہے، اور ظاہر کرتی ہے کہ اگر مسلمان قومیں حکمتِ عملی اپنائیں تو سیاسی حالات بدل سکتے ہیں۔ضربِ کلیم اس مجموعہ میں علامہ اقبال نے دورِ حاضر کے معاشرتی، سیاسی اور روحانی بحران کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے، اور مٹیریل ازم، ظلم، ضعیف اقوام کے استحصال پر تنقید کی ہے۔وہ اشعار / اقتباسات جن سے تعاون یا دفاعی انداز کی جھلک ملتی ہے’مسلمان کو مسلمان کر دیا / طوفانِ مغرب نے ‘مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے حامی ہوں، ایک دوسرے کے خلاف نہ ہوں۔’اقتدار مغرب کی تقلید چھوڑو، اپنی خودی کی روشنی میں آگے بڑھو‘یہ سوچ خودی کے نظریے سے آتی ہے کہ ہر مسلمان قوم کو خوداعتمادی اور باصلاحیت بننا چاہیے تاکہ وہ اپنی سلامتی اور عزت کی حفاظت کر سکے۔یہ تمام خیالات علامہ اقبال کے نظریے خودی کی روشنی میں موجودہ معاہدوں اور مسلمان ممالک کے اتحاد کی عملی ضرورت کی نمائندگی کرتے ہیں۔

تازہ ترین