• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی عالمی اہمیت میں اضافہ، ملکی معاشی مسائل کے حل میں بھی مدد ملے گی
پاکستان کی عالمی اہمیت میں اضافہ، ملکی معاشی مسائل کے حل میں بھی مدد ملے گی

’’ایک پر حملہ، دوسرے پر حملہ تصوّر کیا جائے گا۔‘‘ یہ اُس دفاعی معاہدے کی اہم ترین شق ہے، جس پر پاکستان اور سعودی عرب میں ستمبر کے مہینے میں وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد شہزادہ، محمّد بن سلمان نے دست خط کیے۔ 

شہزادہ محمّد بن سلمان جدید سعودیہ کے معمار ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ اِس وقت وہ مشرقِ وسطیٰ کی سب سے طاقت وَر شخصیت ہیں۔ دفاعی معاہدے نے جہاں برسوں پر محیط فوجی و معاشی تعلقات کو ایک باقاعدہ شکل دی، وہیں دنیا بَھر کی توجّہ بھی اپنی طرف مرکوز کر لی۔ دنیا، خاص طور پر خطّے اور اس سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے ممالک میں بحث کا آغاز ہوا کہ اِس معاہدے کے اثرات کیا ہوں گے۔ 

کیا یہ خطّے کو نئی خارجہ جہت دے گا، اِس سے کشیدگی کم ہوگی یا بڑھے گی اور کیا یہ پاکستان کی معاشی کم زوری کو مضبوطی میں بدلنے میں کردار ادا کرسکے گا؟ اِس بحث کا ایک اہم حصّہ یہ بھی ہے کہ اس کا نفاذ کن معنوں میں ہوگا، کیوں کہ پاکستان ایک نیوکلیئر ریاست ہے۔ سب سے اہم اور پیچیدہ سوال یہ ہے کہ کیا کسی حملے کی صُورت میں پاکستان کی نیوکلیئر چھتری سعودی عرب پر سایہ کرے گی اور اگر ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے، تو پھر اس کے خطّے اور دنیا پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے، کیوں کہ دنیا نیوکلیئر پھیلاؤ پر شدید تحفّظات رکھتی ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اُس وقت سے قائم اور انتہائی مضبوط ہیں، جب سے پاکستان وجود میں آیا۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود رہی کہ سعودی یونٹس اور افراد کو پاکستان کے فوجی اداروں میں تربیت دی گئی اور اُنہیں سعودی عرب میں بھی آن گراؤنڈ ٹریننگ دی گئی۔ کوئی مشکل وقت ایسا نہیں آیا، جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا ساتھ نہ دیا ہو۔ 

ماضی قریب میں سعودی حکومت نے پاکستان کو مالی امداد دی اور آئی ایم ایف سے معاہدے میں بھی تعاون کیا، جس کی وجہ سے پاکستان نہ صرف دیوالیہ ہونے سے بچا، بلکہ آئی ایم ایف پروگرام بھی بحال ہوا۔ پاکستان کی معیشت پر چھائے مایوسی کے بادل چَھٹے اور مُلک دوبارہ اپنی اُس منزل کی طرف گام زن ہوا، جو اس کی بنیادی ضرورت ہے اور مقصد بھی، یعنی معاشی بحالی۔ 

اِس معاہدے میں مشترکہ فوجی مشقیں، تربیت اور انٹیلی جینس شیئرنگ کو مزید مضبوط، مربوط اور وسیع کرنا شامل ہے۔ دونوں ممالک میں فوجی تعاون تو عرصے سے جاری ہے، تاہم17 ستمبر کے پاک، سعودیہ معاہدے نے اسے ایک باقاعدہ شکل دی ہے۔ اِس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک میں اسے زبردست پذیرائی ملی، اس طرح اسے عوامی پُشت پناہی بھی حاصل ہے، جو کسی بھی معاہدے کو دیرپا بنانے میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔

تجزیہ کار اِس معاہدے کے وقت کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ویسے تو گزشتہ25 برسوں سے مشرقِ وسطیٰ میں بحران جاری ہے۔ یہ کیفیت عرب اسپرنگ، یمن کی جنگ، لبنان کے بحران، شام کی خون ریز خانہ جنگی، فلسطین پر جارحیت، ایران، اسرائیل جنگ اور کبھی تیل کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ کی شکل میں سامنے آتی رہی، لیکن گزشتہ چار ماہ کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں انتہائی غیر یقینی صُورتِ حال نے جنم لیا۔ 

غزہ کا دو سالہ بحران اب قحط اور نسل کُشی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ پوری دنیا اسرائیلی جارحیت کی مذمّت کر رہی ہے، لیکن اس کا ظلم تھمنے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ایک اور تبدیلی حماس، حزب اللہ، یمنی حوثی اور ایران کی دوسری پراکسیز کے تقریباً غیر مؤثر ہونے کی صُورت رُونما ہوئی۔ ان پراکسیز کی تمام اہم لیڈر شپ اسرائیلی حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اپریل میں ایران اور اسرائیل کے مابین براہِ راست بارہ روزہ جنگ ہوئی، جس میں ایران کی فوجی طاقت اور نیوکلیئر تنصیبات کو زبردست نقصان پہنچا۔ 

پاس دارانِ انقلاب اور فوج کی ٹاپ لیڈر شپ کے ساتھ اہم ایٹمی سائنس دان بھی ہلاک ہوئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکا نے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر انتہائی طاقت وَر بم گرائے۔ جواباً ایران نے قطر میں موجود امریکی فوجی بیس پر میزائل داغے۔ یہ قطر کی سالمیت کی پہلی خلاف ورزی تھی، لیکن بوجوہ اس پر عرب ممالک نے زیادہ شدّت کا ردّ ِعمل نہیں دیا، لیکن قطر پر اسرائیل کے حملے نے تو مشرقِ وسطیٰ کو ہِلا ڈالا۔ 

اِس دوران اسرائیلی جارحیت نے شدّت اختیار کی اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک میں مختلف اہداف کو نشانہ بنایا، ان میں قطر کے علاوہ لبنان، شام اور یمن شامل ہیں، جب کہ غزہ تو پہلے ہی قتلِ عام سے گزر رہا ہے۔ سلامتی کاؤنسل میں غزہ معاملے پر پیش کردہ قرار داد کو امریکا نے ویٹو کردیا۔ پاکستان نے بھی اُس قرارداد کو اسپانسر کیا تھا۔ اس سے ایک مرتبہ پھر سلامتی کاؤنسل کی کم زوریاں عیاں ہوئیں۔ امریکا کا کہنا تھا کہ اس قرارداد میں حماس کے سات اکتوبر کے حملے کی مذمّت نہیں کی گئی۔ 

یاد رہے، غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک65000 شہری جاں بحق اور لاکھوں زخمی ہوچُکے ہیں، جب کہ خود اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اسے ایک ایسا المیہ کہا، جس کے ضمن میں پوری انسانیت ناکام ہوئی۔ ایران، اسرائیل جنگ ہو یا قطر اور دوسرے ممالک پر اسرائیلی حملے، ان نے مشرقِ وسطیٰ میں غیر یقینی کیفیت بہت بڑھ گئی اور اِسی پس منظر میں پاک، سعودیہ دفاعی معاہدے کی ٹائیمنگ بے حد اہم ہے۔

ابھی تک خلیجی ممالک اپنے دفاع کے لیے امریکا پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ خطّے میں امریکا کے فوجی فٹ پرنٹ بہت مضبوط ہیں، خود قطر میں اس کا العدید بیس، علاقے کا سب سے طاقت وَر فوجی اڈّا مانا جاتا ہے، جہاں سے وہ اور نیٹو، مغربی ایشیا تک میں فوجی کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ایران اور اسرائیل نے قطر پر حملوں سے پہلے امریکا کو بتا دیا تھا۔ اس کا سادہ زبان میں مطلب یہ ہوا کہ ہوشیار ہو جاؤ اور حملے کے خلاف تمام حفاظتی اقدامات کرلو۔ 

حماس کے کیس میں صدر ٹرمپ نے ناراضی کا اظہار تو کیا، تاہم اُنہوں نے حماس کے مذاکرات کاروں کو نشانہ بنانے سے اختلاف نہیں کیا۔ پھر قطر میں ہونے والی او آئی سی کانفرنس کے وقت امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ، مارکو روبیو، اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے، جو واضح اشارہ ہے کہ امریکا، اسرائیل کے ساتھ ہے۔ پاکستان، سعودیہ دفاعی معاہدے کو کچھ نقّاد امریکا کا نعم البدل کہہ رہے ہیں، تو کچھ اسے اس کا سپلیمنٹ۔ اور کچھ اسے چین کے بڑھتے قدم قرار دے رہے ہیں۔ 

تاہم، پاکستان نے یہ معاہدہ امریکا کے خلاف کیا اور نہ ہی اس کی طاقت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان اور امریکا کا موازنہ کرنے سے پہلے ان دونوں کی فوجی، معاشی اور ٹیکنالوجی طاقت سامنے رکھنی چاہیے۔ ہم نے ایک دوست کا مضبوط ساتھ دیا ہے، نہ کہ کسی دوسرے کے خلاف کوئی محاذ قائم کیا۔ بعض تجزیہ کار لاعلمی یا جذبات میں اسے کسی اور رنگ میں پیش کر کے پاکستان اور سعودی عرب کو فائدہ نہیں پہنچا رہے بلکہ ایسی تشریحات کئی مسائل جنم دے سکتی ہیں، جن سے بعد میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

معاہدے میں اس بات کی کُھلی وضاحت موجود ہے کہ یہ دفاعی نوعیت کا ہے اور کسی بھی مُلک کے خلاف نہیں۔ اِس طرح یہ ایک دفاعی اور سیاسی توازن پیدا کرتا ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاک، سعودیہ تعلقات کسی فوری فائدے کے بغیر عرصے سے قائم ہیں، لیکن بہرحال اِس قسم کے دفاعی معاہدوں کے اپنے اثرات ہوتے ہیں، جو طویل المدّتی بھی ہوتے ہیں اور شارٹ ٹرم بھی۔

پاکستان نیوکلیئر پاور ہے اور مسلم دنیا میں سب سے بڑی فوج رکھتا ہے، جس نے حالیہ پاک، بھارت جنگ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوا لیا۔ تاہم یہ حقیقت فراموش کرنا ممکن نہیں کہ معاشی طور پر مُلک بہت کم زور حالت میں ہے۔ کسی قسم کا معاشی جھٹکا جیسے حالیہ سیلاب، عوام کو سخت آزمائش سے دوچار کر دیتا ہے۔ ظاہر ہے، چھے، سات سال سے مسلسل منہگائی، افراطِ زر، ڈالر کی غیر معمولی قیمت اور توانائی خاص طور پر بجلی کے غیر معمولی بلز نے عوامی مشکلات میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے۔ 

اِس صُورتِ حال سے ہر شعبۂ زندگی متاثر ہوا ہے۔ محض خوش کُن یا حوصلہ افزا بیانات عوام کے لیے سکون واعتماد کا باعث نہیں بن سکتے، خاص طور پر جب وہ دیکھتے ہیں کہ برسوں بعد بھی اُن کی حالت نہیں بدلتی۔ یہ وزیرِ اعظم کے لیے جاننا ضروری ہے کہ عوام فوری ریلیف کے خواہاں ہیں، اُنہیں بہت عرصے تک مستقبل کے سہانے خوابوں پر مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ اِس طرح کی خبروں سے کہ خاص شعبوں اور محکموں میں تو لاکھوں کی تن خواہیں اور مراعات ہیں، جب کہ عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے، عوام کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں۔ 

اوپر سے ٹیکس کا بڑھتا بوجھ ہے، جس نے مِڈل کلاس تن خواہ دار طبقے کو بے حوصلہ کردیا ہے۔ ایسے میں پاک، سعودیہ معاہدہ اُمید کی کرن بنا ہے اور لوگ آس لگا رہے ہیں کہ شارٹ ٹرم میں اُن کی مشکلات کا ازالہ ہوگا۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ پاکستانی عوام بھی دوسرے ممالک میں جاتے ہوئے اپنی عزّت اور دوسرے ممالک کے قوانین کا خیال رکھیں۔ اب یہ حکومت کو دیکھنا ہے کہ وہ کس طرح ان کی اُمیدوں پر پوری اُترتی ہے۔ یقیناً سعودی عرب جیسا دفاعی پارٹنر اسلام آباد کی سیکیوریٹی میں بین الاقوامی گارنٹی کا کام دے گا۔ 

پاکستان نے سعودی عرب کی کسی بھی مشکل میں ہمیشہ مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماضی میں جب ایران اور سعودی عرب میں کش مکش چل رہی تھی، تو پاکستان کے وزرائے اعظم ثالثی کے لیے تہران اور ریاض میں موجود ہوتے، باوجود یہ کہ پاکستان کو تَنی رسی پر چلنا پڑتا۔ شُکر ہے، چین کے صدر شی جن پنگ کی ذاتی دل چسپی نے دونوں مسلم ممالک میں معاہدہ کروا کے یہ مشکل ختم کردی۔ تاہم، یہ بات ذہن میں رہے کہ نیوکلیئر ڈیل کے وقت عربوں کو تحفّظات تھے۔

اب وہ اسے کس طرح دیکھتے ہیں، یہ بھی سامنے رہنا چاہیے، کیوں کہ ایران اور پانچ ممالک میں، جن میں چین اور روس بھی شامل ہیں، تبدیل شدہ حالات میں ایک مرتبہ پھر نیوکلیئر ایشو پر مثبت یا منفی پیش رفت ہونے جارہی ہے۔ اس ضمن میں شرمندہ یا جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کو مسلم ممالک کی یک جہتی کے ساتھ، اپنے مفادات بھی کو اوّلیت دینی چاہیے۔ 

اِس امر پر نظر رہے کہ اسرائیل کے خلاف سخت بیانات اُن مسلم ممالک کی طرف سے آتے ہیں، جنہوں نے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم رکھے ہیں اور اُن میں سے کسی ایک نے بھی تعلقات نہیں توڑے۔ سعودی عرب کو، جو مسلم دنیا کے قائدین میں ہے، پاکستان جیسے مُلک کے ساتھ دفاعی معاہدے سے مضبوطی ملی اور اس کی قائدانہ صلاحیت مزید مضبوط ہوئی ہے، تاہم یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایران بھی نیوکلیئر معاملات میں پیش رفت کر رہا ہے۔

اِس بات کا ذکر بہت ہوا کہ معاہدے سے سعودی عرب اور خلیجی ممالک کا امریکا پر انحصار کم ہوگا۔ تاہم اِس ضمن میں چند امور ذہن نشین رکھنے ضروری ہیں۔ امریکا خود اوباما دَور سے کہہ رہا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا میں اپنا کردار گھٹا کر اپنا ارتکاز انڈو پیسیفک پر کر رہا ہے، اسے’’پوٹ پالیسی‘‘ کہا گیا۔ کواڈ فورم جیسے اتحاد اسی کے لیے بنائے گئے، جن میں بھارت بھی شامل ہے۔ 

غزہ پر بدترین اسرائیلی جارحیت، ایران، اسرائیل جنگ، شام میں بشار الاسد کی شکست، روس اور ایران کی پسپائی اور ایرانی پراکسیز کے غیر مؤثر ہونے سے بہت سی جیو اسٹریٹیجک تبدیلیاں رونما ہو چُکی ہیں اور پاکستان کے لیے ان امور پر گہری نظر رکھنی اِس لیے ضروری ہے کہ وہ اِس طرح کے معاملات میں نہ چاہتے ہوئے بھی اُلجھ جاتا ہے۔ نیز، خارجہ امور کو فرقہ وارانہ اور اپنے نظریاتی رنگ دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔ 

ایسے افراد پاکستانی مفادات سے زیادہ، دوسروں کے مفادات کو اولیت دینے لگتے ہیں، چاہے یہ عمل لاعلمی اور نادانی ہی میں کیوں نہ ہو۔ پاکستان ایک عرصے سے افغانستان سے حملے کرنے والی ملیشیاز سے نبرد آزما ہے، تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ معاہدہ پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام میں معاونت کرے گا۔ یاد رہے، ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں جارحانہ خارجہ پالیسی میں ایسی ہی پراکسیز کی مرکزی حیثیت رہی ہے، جس کا خمیازہ اُس کے عوام کو کم زور معیشت کی شکل میں بھگتنا پڑا اور جس سے جان چُھڑوانا مشکل ہوگیا ہے۔ 

اِن امور سے صرفِ نظر کرنا پاکستان کے لیے لانگ ٹرم میں بہت سی پیچیدگیوں کا باعث ہوسکتا ہے۔ بھارت نے پاک، سعودیہ دفاعی معاہدے پر محتاط رویّہ اپنایا ہے، سوائے تجزیہ کاروں کے کڑوے کسیلے تبصروں کے، کوئی سخت سرکاری ردّ ِعمل نہیں آیا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ بھارت میں گزشتہ دس سالوں کے دوران اربوں ڈالرز کی سعودی سرمایہ کاری ہوئی ہے، تو بھارت نہیں چاہے گا کہ اُسے کسی جذباتی ردّ ِعمل سے ضائع کرے۔ 

یہی صُورتِ حال خلیجی ممالک اور قطر کی ہے۔ وہاں بھی بھارت نے بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ ہر خلیجی مُلک میں بھارت کی افرادی قوّت موجود ہے، جن سے میزبان ممالک کو شکایات بھی بہت کم رہی ہیں۔افسوس پاکستانی وہاں یہ مقام نہیں بناسکے، البتہ پاکستان کے گداگروں کی داستانیں شرم سے گردنیں جُھکا دیتی ہیں۔

عرب ممالک میں پچاس لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی موجود ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد کی حرکات مُلک کے لیے نیک نامی کا باعث نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستانیوں کو ویزے کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بہرکیف، پاک، سعودیہ دفاعی معاہدہ ایک اسٹریٹیجک پیغام ہے اور اِس طرح کے دفاعی معاہدے اُن قوّتوں کے لیے پیغام ہوتے ہیں، جو فوجی ایڈونچر کو بہت ہلکا لیتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید
عالمی منظر نامہ سے مزید