• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم اُمہ ناک سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں

جنگوں، تنازعات، کم زور معیشتوں کے ساتھ دنیا میں باوقار مقام کا حصول ناممکن ہے
جنگوں، تنازعات، کم زور معیشتوں کے ساتھ دنیا میں باوقار مقام کا حصول ناممکن ہے 

اگر گزشتہ برسوں کے عالمی حالات و واقعات پر نظر ڈالی جائے، تو واضح ہوگا کہ دنیا بَھر میں سب سے زیادہ تنازعات اور جنگیں مسلم ممالک ہی کو درپیش رہیں۔ کشمیر پر پاک بھارت جنگیں، غزہ پر جارحیت، ایران، اسرائیل جنگ، لبنان کا بحران، شام کی خون ریزی، قطر پر حملے اور یمن میں تباہی، یہ تو وہ تنازعات یا فوجی تصادم ہیں، جو دنیا بَھر میں خبروں کا موضوع ہیں، لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے مسلم ممالک خانہ جنگیوں اور تنازعات کی لپیٹ میں ہیں، جن کا مسلم دنیا کے عوام کو کم ہی علم ہوگا۔ 

شام کی گیارہ سال خانہ جنگی اِس صدی کا ایک خون آشام عالمی المیہ تھا، جس پر مسلم دنیا میں بہت کم بات ہوئی۔ پاکستان میں بھی، جسے مسلم اُمّہ کا سب سے بڑا داعی کہا جاتا ہے، اِس ایشو کو بمشکل کچھ میڈیا کوریج مل سکی، کیوں کہ اس سے فرقہ واریت کے فروغ کا خطرہ بتایا جاتا تھا۔ 

اینکرز اور تجزیہ کاروں کو چُپ لگ گئی تھی۔ گیارہ سال میں5 لاکھ سے زاید شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور ایک کروڑ مُلک میں در بدر ہوئے۔ شہر کے شہر سالوں محاصرے میں رہے، یہاں تک کہ بھوکے لوگ درختوں کی جڑیں کھاتے رہے۔روس جیسی عالمی طاقت کی وہاں کے شہروں پر دو سال بم باری جاری رہی اور سب سے دُکھ کی بات یہ کہ ایران، بشارالاسد کے اتحادی کے طور پر باقاعدہ جنگ میں شریک رہا۔

اس کی حمایت یافتہ ملیشیاز شہریوں کے خلاف فوجی کارروائیاں کرتی رہیں۔ اِس ایشو پر عالمی سطح کے جنیوا وَن اور ٹو مذاکرات ہوئے، جب کہ سلامتی کاؤنسل کے اجلاس بھی ہوئے، جن میں پیش کردہ قراردادیں روس اور چین نے ویٹو کیں۔کشتیوں میں لد لد کر یورپ کے موت کے سفر کا آغاز اِسی خانہ جنگی سے ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے روڈ میپ پائوں تلے روندے گئے۔ اِسی طرح لیبیا دو حصّوں میں بٹا ہوا ہے، وہاں یہ بھی نہیں پتا کہ کس کی حکومت ہے۔

نائیجیریا میں فوج اور دیگر سیکیوریٹی فورسز مسلسل جنگ کر رہی ہیں، تو سوڈان میں بھی سیکیوریٹی فورسز آپس میں دست وگریباں ہیں۔ ازبکستان اور آرمینیا میں تواتر سے جنگیں جاری ہیں، جن کے درمیان اب صدر ٹرمپ نے معاہدہ کروایا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے دو ممالک ملائیشیا اور انڈونیشیا کے علاوہ، ہر مسلمان مُلک کسی نہ کسی بحران سے گزر رہا ہے۔ اِن تنازعات میں مسلم ممالک کے آپس کے تنازعات کا ذکر نہیں، جو اکثر دشمنی کی حدوں کو چُھونے لگتے ہیں۔

افسوس اور شرم کی بات یہ بھی ہے کہ مسلم اُمّہ کے دعوے داروں کو مذاکرات اور امن معاہدوں تک پہنچنے کے لیے غیرمسلم ممالک اور عالمی اداروں کا سہارا لینا پڑتا ہے، جن سے متعلق ان کے حکم ران، سیاست دان اور تجزیہ کار یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ یہ سب مسلم دنیا کے دشمن ہیں اور ہر لمحے اس کے خلاف سازشوں میں مشغول رہتے ہیں۔ نہ معلوم اُس وقت وہ غیرت کہاں منہ چُھپا لیتی ہے، جس کا سوشل میڈیا پر اہلِ دانش ہر وقت درس دیتے رہتے ہیں۔

اگر دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے، تو مسلم دنیا افریقا میں تیونس سے لے کر بحرالکاہل میں ملائیشیا تک 57 ممالک کی صُورت پھیلی ہوئی ہے۔مسلم ممالک کی تنظیم ’’ اسلامی تعاون تنظیم‘‘ ممبرشپ کی تعداد کے لحاظ سے اقوامِ متحدہ کے بعد سب سے بڑی تنظیم ہے۔ جب بھی او آئی سی کا اجلاس ہوتا ہے، تو عوام، اہلِ دانش، مذہبی رہنما اور سیاست و سفارت کے ماہرین یہ توقّعات وابستہ کرلیتے ہیں کہ اب دشمن کو کوئی ٹھوس جواب دیا جائے گا، جو مسلم دنیا کی طاقت کی علامت بنے گا، لیکن ایسا آج تک کبھی نہیں ہوا۔ 

اِسی لیے تبصرہ کار سر ہلا ہلا کر اس پر تنقید کرتے ہیں اور ان کی مایوسی عوام میں بھی سرایت کرجاتی ہے اور یوں وہ اپنے اس ایک ہی ادارے کو ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر کوستے ہیں۔ حال ہی قطر میں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس کی مشترکہ قرارداد پر بھی بہت تنقید ہوئی اور پاکستان کی حد تک تو تجزیہ کاروں نے اس قرارداد کو رگیدنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور خوب رونا رویا کہ کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی۔ 

ٹھوس بات سے مُراد غالباً اُن کی یہ خواہش تھی کہ حماس کی مذاکراتی ٹیم پر حملے کے جواب میں اسرائیل پر فوری حملہ کیا جائے اور وہ بھی تمام مسلم ممالک مل کر کریں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی دو باتوں کی وضاحت نہیں کرسکا۔اوّل، کیا اوآئی سی کے چارٹر میں اِس قسم کے فوجی تعاون اور حملوں کی گنجائش ہے۔ 

دوم، فوجی کارروائی کے لیے جن تیاریوں کی ضرورت ہوتی ہے، کیا وہ مشترکہ شکل میں کبھی بھی مسلم ممالک کے درمیان کی گئیں۔او آئی سی کا چارٹر تحریر کرنے والے یقیناً 57ممالک کی مختلف ثقافتوں، سیاسی حالات اور مذہبی معاملات میں ہم آہنگی نہ ہونے سے بخوبی واقف ہوں گے۔ ان کا مختلف خطّوں میں ہونا، معیشتوں کا فرق، آبادیوں کی ہئیت، اندرونی اور علاقائی تنازعات سب ہی پر نظر رکھ کر او آئی سی کا چارٹر بنایا گیا ہوگا۔ مسلم ممالک میں یک جہتی کی بات آئیڈیل تو ہے، لیکن خود ان ممالک کی اندرونی چپقلشیں اِتنی شدید نوعیت کی ہیں کہ بات بات پر خانہ جنگی پُھوٹ پڑتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی مثال سب کے سامنے ہے۔

اِسی طرح سعودی عرب، خلیجی ممالک اور ایران کے درمیان دو دہائیوں سے زیادہ تلخی بلکہ دشمنی رہی، جس نے شام کے بحران میں سعودی، ایران تنازعے کی شکل اختیار کر لی۔ وہ تو چین کے صدر کا شُکریہ، جنہوں نے ذاتی دل چسپی لے کر دو سال پہلے ایران اور سعودی عرب میں معاہدہ کروا کے سفارتی تعلقات قائم کروائے۔ اِس سے قبل ترکی اور عرب ممالک میں کشیدگی کی باتیں عام تھیں، جن میں اب کہیں جاکر کمی آئی ہے۔ قطر پر اسرائیل کے حملے کا ذکر تو عام ہے، لیکن اپریل میں ایران نے امریکا سے بدلہ لینے کے لیے قطر پر جو حملہ کیا تھا، وہ کس کھاتے میں ڈالا جائے گا؟ 

کیا اُس وقت قطر کی سالمیت کی پرواہ کی گئی؟ اسلامی کانفرنس کا ایک اجلاس اُس وقت بھی ہوجاتا کہ برادر مسلم ممالک کے ایک دوسرے پر حملے کتنے تکلیف دہ اور ساری مسلم دنیا کے لیے آزمائش کا سبب بنتے ہیں۔ ایران، سعودی کش مکش کے نتائج پاکستان نے بہت بھگتے ہیں۔ کیا کبھی او آئی سی نے افغانستان کو یہ کہا کہ وہ اپنی سرزمین برادر اسلامی مُلک، پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے اور کیا کسی مسلم برادر مُلک نے اِس طرف توجّہ بھی دلائی۔

کیا یہ سب یک جہتی کی مثالیں ہیں؟ پھر حالات سے نابلد عوام ہیں، جو جوش میں طرح طرح کی توقّعات وابستہ کر لیتے ہیں اور تجزیہ کار بھی اپنی علمیت جھاڑنے کے لیے انہیں مزید بھڑکاتے ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم کا چارٹر دیکھیں، تو اس میں مسلم ممالک کے درمیان اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور تعلیمی تعاون کا ذکر ہے۔ کیا ہمیں یہ بھی علم ہے کہ سوائے سلامتی کاؤنسل کے کوئی اور ادارہ فوجی کارروائیوں یا اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔شیکسپیئر نے کہا تھا’’لاعلمی ایک نعمت ہے‘‘ تو کیا ہم اِسی پر عمل پیرا نہیں؟

کہا جاتا ہے کہ’’ مسلم دنیا کے پاس کیا کچھ نہیں ہے۔‘‘ درحقیقت یہ کہنے والوں کے ذہن میں تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک ہیں، کیوں ان کے علاوہ باقی مسلم ممالک میں تو شاید ہی کوئی مُلک عالمی ترقّی کے معیار پر پورا اُترتا ہو۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایران نے ایٹمی پروگرام کے بعد جو پابندیاں برداشت کیں، اُس نے اُس کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچادی۔ 

وہاں کے گزشتہ چار عام انتخابات دیکھ لیں، سب میں عوام اور آنے والی لیڈرشپ کا مطالبہ یہی رہا کہ تمام ممالک سے تعلقات اچھے کریں اور معیشت بہتر بنائیں، تاکہ عوام کو سُکھ چین نصیب ہو۔ صدر روحانی سے لے کر اب تک آنے والے تمام صدور کا یہی منشور ہے اور اِسی لیے سخت گیروں کی تمام تر مخالفت کے باوجود حسن روحانی نے نیوکلیئر ڈیل کی تھی۔

پھر اگر اسی نیوکلیئر ڈیل ہی کو سامنے رکھا جائے، تو ایک طرف ایران تھا اور دوسری طرف امریکا، روس، چین، یورپ اور برطانیہ یعنی چین اور روس تک ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے مخاف ہیں، حالاں کہ ان دونوں سے ایران کے اچھے تعلقات ہیں۔ دوسری طرف دیکھ لیں، امریکا قطر کا دوست ہے، تو بیش تر عرب ممالک بھی اس کی دفاعی چھتری تلے ہیں، جب کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں اس کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ تُرکیہ کے، جو اِس وقت اسلامی تعاون تنظیم کی صدارت پر فائز ہے، اسرئیل کے ساتھ75 سال سے باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں۔ 

اسرائیل کے ساتھ اِسی طرح کے تعلقات کئی دیگر عرب اور افریقی ممالک کے بھی ہیں، جن میں مصر اور اردن جیسے بڑے ممالک شامل ہیں۔ چلیں، امریکا تو اسرائیل کا سب سے بڑا حامی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا روس اور چین نے اسرائیل کے خلاف وہ اقدامات اُٹھائے، جن کا مطالبہ کم زور معیشت کے حامل مسلم ممالک سے کیا جاتا ہے ہیں، جو بمشکل قرضے لے لے کر گزارہ کر رہے ہیں۔

عرب دنیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے مسلم ممالک کے علاوہ وہ کون سا اسلامی مُلک ہے، جس کی معیشت مضبوط تو کیا اپنے پیروں پر بھی کھڑی ہے؟صرف پاکستان ہی نہیں، اکثر مسلم ممالک، جن کا بڑے زور و شور سے ذکر کیا جاتا ہے، آئی ایم ایف کے کئی کئی پروگرامز کے بعد سنبھلے ہیں۔ 

تُرکیہ نے بڑی دشواریوں کے بعد اس سے پیچھا چُھڑوایا تھا، لیکن اب پھر گزشتہ سالوں میں اس کی معیشت مشکلات سے گزر رہی ہے۔ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک قرضے دے کر ان مسلم ممالک کو چلاتے ہیں اور ناقدین انہی پر تنقید کے ڈونگرے برساتے ہیں۔ 

کیا سب کچھ ایک ہی ہلّے میں ختم کرنا ہے۔ اب ایسی حالت میں ان ممالک سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ امریکا سے ٹکرا جائیں، کیسی دانش وری ہے؟او آئی سی کے علاوہ بھی دنیا میں تعاون کی تنظیمیں ہیں۔ایس سی او کا اجلاس حال ہی میں ہوا۔اس کے علاوہ آسیان اور یورپی یونین ہیں۔ سب کے ایجنڈے اُٹھا کے دیکھ لیں، ان میں رُکن ممالک کے درمیان اُس تعاون کو اوّلیت دی گئی ہے، جس سے ان کی معیشتیں مضبوط ہوں اور وہ ترقّی کریں۔ 

مُلک مُلک بھیک نہ مانگتے پھریں۔ گرمی آئے تو ہائے ہائے، مون سون آئے تو رونا پیٹنا، سیلاب آئے، تو کشکول تیار، بیماری آئے تو بے بسی۔ مسلم ممالک کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ معیشت کم زور ہو، تو عوام چاہے کسی قسم کے بھی جذبات رکھتے ہیں، وہ کسی بھی بڑے اقدام کے متحمّل نہیں ہوسکتے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہر مُلک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، جو عوام کی بھلائی سے منسلک ہوتے ہیں۔جو جس خطّے میں رہتا ہے، اُس کے اپنے تقاضے ہیں۔

ایران مسلم مُلک ہوتے ہوئے قطر پر حملہ کر بیٹھا۔ اِسی طرح امریکا، اسرائیل اور قطر دونوں کا گہرا دوست ہے۔ قطر کی ساری حفاظتی چھتری امریکا، یورپی ممالک کے پاس ہے۔ اس کے قیمتی تیل کا زیادہ تر حصّہ بھی وہی خریدتے ہیں۔اِنہی سارے عوامل کی وجہ سے قطر بین الاقوامی ثالثی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، وگرنہ آج سے ایک سو سال پہلے قطر یا ایسے چھوٹے ممالک کو کون جانتا تھا۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ امیر مُلک، غریب مسلم ممالک کے نوجوانوں کے روزگار کا بڑا ذریعہ ہیں کہ زرِ مبادلہ کا بڑا حصّہ اِنہی ممالک میں کام کرنے والے تارکینِ وطن سے آتا ہے۔ یہ ساری باتیں جتنی تلخ اور کڑوی ہیں، اتنی ہی جذباتی عوام اور اُن کے رہنمائوں کی آنکھیں کھولنے والی ہیں، لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر اندھا بنا رہنا چاہے، تو اُسے کون راہ دِکھا سکتا ہے۔

مسلم دنیا کے عوام، خاص طور پر پاکستانی لفظ’’مفادات‘‘ کو بہت ہی بُرے معنوں میں لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مفادات کے تحت پالیسی بنانا بِکنے کے مترادف ہے۔ بے غیرتی اور غدّاری ہے، حالاں کہ مفادات عالمی امور میں مختلف نظریات اور جغرافیائی پوزیشن کے ممالک کو ایک دوسرے کے مسائل سمجھنے اور اُن کے درمیان توازن قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔کہیں کہیں، کبھی کبھی مفادات کا ٹکرائو بھی ہوجاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ لازماً اس کا حل فوجی کارروائی ہی سے نکالا جائے۔

اس کے لیے بین الاقوامی اور علاقائی سفارتی و قانونی ذرائع موجود ہیں۔ تنظیمیں اور ثالثی کے لیے مُلک بھی ہیں، جن کے لیے امن اُتنا ہی ضروری ہوتا ہے، جتنا تنازعے میں ملوّث فریقین کے لیے۔ وگرنہ چین کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ سعودی عرب اور ایران میں سفارتی تعلقات قائم کرواتا۔ مسلم دنیا میں فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات زخم بن چُکے ہیں۔ خاص طور پر فلسطین اِس وقت ہاٹ پوائنٹ ہے، وہاں پر دو سال پہلے7 اکتوبر کے بعد جس طرح غزہ کو اسرائیل نے بربریت کا نشانہ بنایا، وہ ناقابلِ معافی ہے۔ 

بلاشبہ اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا اور قابض قوّت سے ٹکرانا، عالمی قوانین کے تحت فلسطینیوں کا حق ہے اور کوئی بھی اِس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ البتہ اِس امر پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ اسرائیل جیسے عفریت کے خلاف کس طرح کی حکمتِ عملی کارگر ثابت ہوسکتی ہے؟ کیوں کہ محض ٹکرانا کافی نہیں، بلکہ جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانا بھی ایک بہتر آپشن ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیل، غزہ پر مکمل قبضے کے لیے فوجی کارروائی شروع کرچُکا ہے اور ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ 

ایسے میں وہاں کے مزاحمت کاروں کو اپنی بچی کھچی طاقت بچا کر آیندہ کی منصوبہ بندی کی طرف بھی توجّہ دینی چاہیے، خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب کوئی بھی اُن کی پشت پناہی کے لیے موجود نہیں۔ یوکرین میں روس کے مفادات ہیں، اِس لیے پونے چار سال سے اپنی پوری فوجی قوّت وہاں جھونک رکھی ہے۔ تیل 35فی صد کم پر فروخت کر رہا ہے۔

شنگھائی فورم میں پیوٹن جیسے’’ مردِ آہن‘‘ نے چین کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے، لیکن غزہ میں کُھلی جارحیت کے باوجود ایک گولی چلانے کو تیار نہیں۔ یہ صرف امریکا، یورپ یا اسرائیل کے حمایتوں کا معاملہ نہیں، جو باقی عالمی رہنما ہیں، وہ بھی تو بیانات سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں، حالاں کہ مسلم ممالک کے مقابلے میں اُن کے پاس ایٹمی طاقت بھی ہے، بڑی فوجیں بھی اور مضبوط معیشتیں بھی۔ مسلم دنیا کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کو تیار ہی نہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ عملی اقدام صرف فوجی نہیں، معاشی اور سفارتی بھی ہوتے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید
عالمی منظر نامہ سے مزید