ایک نئے مطالعے میں محققین کا کہنا ہے کہ شدید موٹاپے کے شکار افراد کو صحت کی دیکھ بھال کے سلسلے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بہت سے کلینک انہیں دیکھنے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔
محققین نے اینالز آف انٹرنل میڈیسن میں شائع ہونے والے نتائج میں لکھا ہے کہ 41 فیصد کلینکس نے 465 پاؤنڈ وزن والے ایک فرضی مریض کے لیے ملاقات کا وقت مقرر کرنے سے انکار کر دیا۔
محققین کی رپورٹ کے مطابق ایک آرتھوپیڈک سرجن کے دفتر میں ایک ریسیپشنسٹ نے بغیر کوئی وجہ بتائے کہا کہ ہم اس جگہ پر موٹاپے کے شکار مریضوں کی مقررہ حد تک پہنچ چکے ہیں۔
نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ نصف سے زیادہ کلینکس کے پاس ایسی سہولتیں یا ساز وسامان نہیں تھا جو 60 یا اس سے زیادہ باڈی ماس انڈیکس والے مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
بی ایم آئی قد اور وزن کی بنیاد پر جسم کی چربی کا تخمینہ ہے، یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق 40 یا اس سے زیادہ بی ایم آئی کے حامل شخص کو شدید موٹاپے کا شکار تسلیم کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر کئی کلینکس کے پاس ایسے معائنے کے بیڈ یا کرسیاں نہیں تھیں جو زیادہ وزن برداشت کر سکیں، نہ ہی کافی چوڑے راستے اور دروازے تھے اور نہ ہی بڑے سائز کے گاؤن تھے۔
شکاگو میں نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی فینبرگ اسکول آف میڈیسن میں میڈیسن اور میڈیکل سوشل سائنسز کی لیکچرر، سینئر مصنف ڈاکٹر تارا لاگو کے مطابق شدید موٹاپے کے ساتھ زندگی گزارنے والے مریض پہلے ہی شرمندگی اور مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، اگر ایسے مریض کو بتایا جائے کہ وہ میز پر لیٹ کر معائنہ نہیں کرا سکتے یا گاؤن نہیں پہن سکتے یا معائنے کے دوران انہیں کھڑا رہنا پڑے گا تو یہ رویہ اسپتال جیسی محفوظ جگہ کو ان کے لیے ذلت آمیز اور توہین آمیز تجربہ بنا دیتا ہے، ہمیں بحیثیت پیشہ ور تسلیم کرنا ہوگا کہ سب لوگ بہتر علاج کے مستحق ہیں۔
محققین کے مطابق امریکا میں تقریباً ہر 270 میں سے 1 بالغ شخص یعنی لگ بھگ 10 لاکھ افراد انتہائی شدید موٹاپے یعنی 60 بی ایم آئی یا اس سے زیادہ کا شکار ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلا کہ ایسے مریضوں کو عام افراد کے مقابلے میں 2 سے 3 گنا زیادہ صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہوتا ہے، اس کے باوجود وہ معمول کی اسکریننگ اور حفاظتی دیکھ بھال جیسے کینسر کی اسکریننگ کم کراتے ہیں۔
ڈاکٹر تارا لاگو کے مطابق موٹاپا کینسر کی اسکریننگ کو متاثر کرتا ہے اور اسکریننگ میں ناکامی کے نتیجے میں کینسر کی تشخیص دیر سے ہو سکتی ہے، ہم ہمیشہ زیادہ وزن والے مریضوں میں بدتر نتائج کو وزن سے ہی منسوب کرتے ہیں، لیکن اب زیادہ مطالعات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اصل وجہ خراب علاج، علاج سے محرومی یا علاج سے گریز ہے۔
نئے مطالعے کے لیے محققین نے سیکرٹ شاپنگ کا طریقہ استعمال کیا ہے جس کے تحت 465 پاؤنڈ وزن والے مریضوں کے لیے 4 میٹروپولیٹن علاقوں بوسٹن، کلیولینڈ، ہیوسٹن اور پورٹ لینڈ اوریگون میں 5 شعبوں جلد کی بیماریوں، اینڈوکرائنولوجی، گائناکالوجی، آرتھوپیڈک سرجری اور کان، ناک اور گلے یعنی ای این ٹی کے مختلف کلینکس میں اپائنٹمنٹ لینے کی کوشش کی گئی۔
اس حوالے سے یونیورسٹی آف شکاگو میڈیسن کی معالج، لیڈ ریسرچر ڈاکٹر مولی ہیلسنے نے نیوز ریلیز میں بتایا ہے کہ ہم نے اپنے کال کرنے والوں کے کچھ سوالات کو ریسیپشنسٹ کے لیے ریڈ فلیگ کے طور پر ڈیزائن کیا تاکہ وہ سوچیں کہ مجھے واقعی اس شخص کا وقت مقرر کرنا چاہیے، کیونکہ سوالات سے پتہ چلتا ہے کہ مریض کو کینسر ہو سکتا ہے اور اسے فوری معائنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کل 300 کلینکس کا جائزہ لیا گیا، جن کے نتائج کے مطابق ای این ٹی ڈاکٹروں نے سب سے زیادہ ایسے مریضوں کو اپائنمنٹ دینے سے انکار کیا اور صرف 48 فیصد نے اپائنٹمنٹ دیا، دوسری طرف اینڈوکرائنولوجی کلینکس ایسے اپائنمنٹس دینے کے لیے سب سے زیادہ تیار تھے اور ان کے پاس بہتر سہولتیں بھی دستیاب تھیں، تاہم تقریباً 16 فیصد کلینکس جنہوں نے اپائنٹمنٹ دینے پر آمادگی ظاہر کی، ان کے ہاں مریض کو ذلت آمیز صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا جیسے معائنے کے دوران کھڑا رہنا کیونکہ بیٹھنے کی جگہ نہ تھی یا انہیں کپڑوں کے بجائے چادر اوڑھنا پڑی کیونکہ وہاں گاؤن دستیاب نہیں تھا۔
ڈاکٹر مولی ہیلز کے مطابق ہمارے اعداد و شمار اصل مسئلے سے کم ہیں، زیادہ تر بھاری وزن والے مریض اپائنٹمنٹ لیتے وقت پوچھتے ہی نہیں کہ انہیں یہ سہولتیں میسر آئیں گی یا نہیں اور بدنامی کے احساس کی وجہ سے وہ سوال کرنے یا اپنے لیے آواز اٹھانے سے ہچکچاتے ہیں۔