• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں جو محض سیاست کے کھلاڑی نہیں بلکہ زمانے کے فیصلوں کے معمار ثابت ہوتے ہیں۔ ٹونی بلیئر انہی میں سے ایک ہیںایک ایسا چہرہ جو کبھی برطانیہ کی سیاست کا سنہری حوالہ تھا مگر آج عراق کے کھنڈرات اور فلسطین کی زخم خوردہ سرزمین پر ایک سایہ بن کر کھڑا ہے۔

اکتوبر 2015 میں جب انہوں نے سی این این کو انٹرویو دیا اور تسلیم کیا کہ عراق پر حملہ جھوٹی اطلاعات پر کیا گیا تھا، تو یہ محض ایک معافی نہ تھی، بلکہ بیس لاکھ سے زیادہ بے گناہ روحوں کی کراہیں تھیں جو ان کے ضمیر پر دستک دے رہی تھیں۔ اس معافی کے باوجود وہ جرم مٹایا نہیں جا سکتا جو تاریخ کے صفحات پر کندہ ہو چکا ہے۔

اب سوال یہ ہے: کیا ایسا شخص، جسکے ہاتھ عراق کے لہو سے تر ہیں، غزہ کے مستقبل کی تقدیر کا نگہبان بن سکتا ہے؟امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ بلیئر کے قریبی تعلقات کسی راز سے کم نہیں۔ فلسطینی عوام کے نزدیک وہ ہمیشہ ایک مشکوک شخصیت رہے ہیں، ایک ایسا ثالث جو ثالث نہیں بلکہ طاقتور کے حق میں جھک جانے والا وکیل ہے۔

حماس کے سیاسی بیورو کے رکن حسام بدران نے بالکل درست کہا کہ بلیئر کو غزہ کا انتظام سنبھالنے کے بجائے جنگی جرائم کے مقدمے کا سامنا کرنا چاہیے۔ ’’بلیئر سے جڑا کوئی بھی منصوبہ بری علامت ہے۔‘‘یہ جملہ فلسطینیوں کے اجتماعی شعور کی صدا ہے۔

بلیئر کو کوارٹیٹ ایلچی کے طور پر آٹھ سال تک آزمایا گیا۔ ان کا مقصد فلسطینی اتھارٹی کو مضبوط بنانا تھا، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی سمت کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ غیر قانونی بستیاں بڑھتی گئیں، آبادکاروں کا تشدد تیز ہوتا گیا اور بلیئر کی نگاہیں معاشی ترقی کے مبہم نعروں پر مرکوز رہیں۔ ایک ایسا ایلچی جو سیاسی انصاف کے بجائے صرف معاشی ترقی کی بات کرے، اس کی غیر جانبداری کس طرح تسلیم کی جا سکتی ہے؟

عرب عوام آج بھی عراق کو نہیں بھولے۔ بغداد کی سڑکیں، نجف کے مزار، موصل کے کھنڈرات سب ایک ہی کہانی سناتے ہیں: مغربی طاقتوں نے جھوٹ کے تانے بانے سے ایک پوری قوم کو تاراج کر دیا۔ وہی بلیئر اب غزہ میں امن کے نام پر داخل ہوں، تو کیا فلسطینی ان کے وعدوں پر اعتماد کر سکتے ہیں؟امن صرف اجلاسوں اور منصوبوں میں نہیں ملتا۔ امن انصاف کے بغیر ممکن نہیں۔ بلیئر کا ماضی فلسطینیوں کیلئے اس ناانصافی کی علامت ہے جو ایک دن عراق پر مسلط کی گئی تھی اور آج فلسطین پر مسلط ہے۔

برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ سائمن فریزر نے کہا کہ بلیئر نے فلسطینی مسئلے میں دلچسپی دکھائی۔ لیکن دلچسپی اور ایمانداری میں فرق ہے۔ فلسطینی عوام کیلئے بلیئر ایک مغربی نقاب ہیں جو اسرائیل اور امریکہ کی پالیسیوں کو مشرقی زخموں پر مرہم کے نام پر چپکانا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی نامزد مندوب فرانچسکا البانیز نے دوٹوک کہا: ’ٹونی بلیئر؟ بالکل نہیں۔ فلسطین سے دور رہیں۔‘ ان کے یہ الفاظ محض تنقید نہیں بلکہ ایک عالمی انتباہ ہیں کہ امن کی راہ پر ایسے کردار کا سایہ زہر کی طرح اثر انداز ہو سکتا ہے۔

اگر غزہ میں امن قائم کرنا ہے تو اس کیلئے ایک ایسی قیادت درکار ہے جو واقعی غیر جانب دار ہو، جو نہ امریکہ کی مرضی سے جھکے اور نہ اسرائیل کے دباؤ میں آئے۔ ٹرمپ کے ’بورڈ آف پیس‘ کے منصوبے میں بلیئر کی شمولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ ایک بار پھر فلسطین کے مستقبل کو مغربی طاقتوں کے شطرنج کے کھیل میں قربان کیا جا رہا ہے۔

بلیئر کا تجربہ ضرور ہے، تعلقات بھی ہیں، مگر اعتماد نہیں۔ اور امن کیلئے سب سے پہلی شرط اعتمادہے۔ فلسطینیوں کے نزدیک وہ اعتماد کب کا ٹوٹ چکا ہے۔کچھ لوگوں کے نزدیک بلیئر ’ٹیفلون ٹونی‘ ہیںیعنی ایسا سیاستدان جس پر کوئی الزام اثر نہیں کرتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے آئینے پر وہ دھبہ بن چکے ہیں۔ عراق کے ملبے پر کھڑے ہو کر جو معافی مانگی گئی تھی، وہ فلسطین کے زخموں پر مرہم نہیں بن سکتی۔غزہ کا مستقبل کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں دینا، جو خود ایک جنگی جرم کے الزام تلے دبا ہواہے، دراصل ایک نئے المیے کی تیاری ہے۔ امن کے معمار وہی بن سکتے ہیں جن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے آلودہ نہ ہوں۔ٹونی بلیئر کی موجودگی غزہ کے امن منصوبے میں صرف ایک تضاد کو جنم دے گی۔ وہ امن کا پیامبر نہیں بلکہ ماضی کی شکستوں کی یاد دہانی ہیں۔ فلسطینی عوام کیلئے وہ ایک خالی وعدہ ہیں، ایک پرانا زخم ہیں، ایک ایسا بوجھ ہیں جس کے ساتھ کوئی نیا مستقبل تعمیر نہیں ہو سکتا۔

غزہ کو ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو انصاف کو بنیاد بنائے، جو سچائی کو ہتھیار بنائے، اور جو مظلوموں کے دکھ کو سیاسی کھیل کے بجائے انسانی تقدیر سمجھے۔ ٹونی بلیئر اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ ان کی جگہ امن کے راستے میں نہیں بلکہ تاریخ کے کٹہرے میں ہے۔

تازہ ترین