• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طاہرالقادری کے چاہنے والوں کے ساتھ جو ہوا ،اسے نرم ترین الفاظ میں سفاکی اور درندگی ہی کہا جا سکتا ہے ۔اس بحث سے قطع نظر کہ حاکمان وقت کو مشیروں کے انتخاب نے رسوا کیا یا پھر جیو نیوز اور جنگ گروپ کی طرح ان کا ستارہ بھی گردش میں ہے۔ ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل اسکرپٹ کے عین مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ہدایت کار وں کی توقع سے پہلے ہی اسٹوری کلائیمکس کی طرف بڑھ رہی ہے اور ’’دی اینڈ ‘‘ ہونے والا ہے۔ ادھر جمہوریت کا وجود خطرے میں ہے اور اُدھر میڈیا کی آزادی کی جنگ فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہوا چاہتی ہے ۔ایک طرف حکومت کے کندھوں پر بندوق رکھ کر جیو نیوز کی سزا بڑھانے کے لئے اپیل دائر کی جا رہی ہے تو دوسری طرف نادیدہ ہاتھوں نے اب ’’جنگ‘‘ کا گھلا گھوٹنے اور قانونی سزا کے ساتھ ان دیکھی ابتلا کا کھیل پھر سے شروع کر دیا ہے۔چند روز قبل مجھے کسی قاری نے موبائل فون پر ایس ایم ایس کیا کہ سب نیوز چینلز بھی بند ہو جائیں تو ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟ الیکٹرانک میڈیا نے آخر کیا مثبت کردار ادا کیا ہے پوری قوم کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ ریٹنگ کی دوڑ میں ٹی وی چینلز کی سنسنی خیزی ،غیر ذمہ داری اور عدم بلوغت کا میں خود ناقد ہوں اور اپنے کئی کالموں میں سخت سے سخت الفاظ میں اپنی رائے کا برملا اظہار کرتا رہا ہوں لیکن ان کی بندش پر ہماری لاتعلقی کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ایک بار پھر مغل بادشاہ اکبر کے دور میں واپس جانے کے متمنی ہیں ،جہاں انارکلی کو دیوار میں چنوا دیا جاتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ یہ بحران جو ابھی یکسر ختم نہیں ہوا بلکہ منطقی انجام کا مرحلہ باقی ہے، اس میں سب کے لئے سیکھنے اور سبق حاصل کرنے کے لئے بہت کچھ ہے۔سب سے بڑا سبق تو خود میڈیا کےلئے ہے کہ وہ آزادی جو کسی جدوجہد کے بغیر طشتری میں رکھ کر دے دی گئی،اس کی بے قدری کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ آج ایک بار پھر ریورس گیئر لگ گیا ۔اسے قدرت کی طرف سے آزمائش سمجھیں، مکافات عمل یا کچھ اور لیکن اس برے وقت میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ ایک اور سبق یہ بھی ہے کہ آپ حق پر ہونے کے باجود تنہا کیوں رہ گئے؟میڈیا کے ساتھ ساتھ اس بحران نے حکومتی تذبذب کو بھی بے نقاب کر دیا۔ حکومت حسب روایت تجاہل اور تغافل کا شکار رہی یا باالفاظ دیگر خاموش تماشائی بنی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ادارے باہم دست و گریباں ہو گئے۔ پہلے ریاست کے اندر ریاست کی بات ہوتی تھی ،اب ہر ادارے کے اندر ایک الگ ادارہ موجود ہے ۔کرکٹ بورڈ سے پیمرا تک بیشتر قومی ادارے اپنی ساکھ اور غیر متنازع حیثیت گنوا چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی سرکس کا کھیل جاری ہے جس میں کبھی کوئی غالب آ جاتا ہے تو کبھی کسی کا پلہ بھاری رہتا ہے۔کبھی ایک اور دوسرے کے آئوٹ ہونے اور کبھی دوسرے کے ان اور پہلے آئوٹ ہونے کی خبر سنائی دیتی ہے۔اسی طرح شام کو خبر ملتی ہے کہ پیمرا کے اجلاس میں ایک چینل کی بندش کا فیصلہ ہو گیا ،نصف شب پیمرا کے ترجمان کی طرف سے وضاحت جاری ہوتی ہے کہ وہ اجلاس ہی غیر قانونی تھا اور فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں۔کہیں حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس میڈیا کے بحران میں حکومت کے دل کسی اور کے ساتھ ہیں مگر تلواریں کسی اور کے ساتھ۔ گومگو کی اس کیفیت میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔
اس بحران کے نتیجے میں بہت سے افراد ،کئی جماعتیں اور ادارے بے نقاب ہوئے۔یہ واضح ہو گیا کہ کس کی ڈور کہاں سے ہلتی ہے، کونسا ادارہ کتنا کمزور ہوا اور کس میں ابھی کتنا دم ہے۔جب میں بیک وقت کئی متوازی حکومتوں کو کام کرتے دیکھتا ہوں تو جرمن دانشور میکس ویبر کا قول یاد آتا ہے۔ اس نے کہا تھا ،کوئی ریاست اسی صورت میں مضبوط و مستحکم ہو سکتی ہے جب اقتدار و اختیار کسی ایک ادارے یا سربراہ کے پاس ہو۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک قبیلے کے دو سربراہ نہیں ہو سکتے، ایک قبائلی علاقے کے دو پولیٹیکل ایجنٹ نہیں ہو سکتے،ایک گھر کے دو سربراہ نہیں ہو سکتے ،ایک گاڑی کے دو ڈرائیور نہیں ہو سکتے،ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں ،ایک بیوی کے دو شوہر نہیں ہو سکتے ،اسی طرح ایک ریاست کے دو حکمران نہیں ہو سکتے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بظاہر حکمران کوئی اور ہیں جبکہ حقیقی حکمران کوئی اور ہیں۔یہ وہ گاڑی ہے جس کے بیک وقت دو اسٹیئرنگ ہیں اور دونوں پر براجمان ڈرائیور اس گاڑی کو الگ سمت میں مختلف رفتار سے بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک ڈرائیور گاڑی کی رفتار بڑھانا چاہتا ہے تو دوسرا بریک لگا دیتا ہے۔ایک ’’استاد‘‘ دائیں طرف موڑنا چاہتا ہے تو دوسرا ’’ڈرائیور بائیں طرف اسٹیئرنگ گھما دیتا ہے یا یوں سمجھئے اس ریاست کی مثال اس بدقسمت مریض کی ہے جو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں پڑا ہے اور دو مختلف ڈاکٹر اپنے اپنے طریقے سے اس کاعلاج کرنے میں مصروف ہیں۔ایک کا خیال ہے کہ مریض کو شوگر ہے لہٰذا اس کی ایک ٹانگ کاٹ دی جائے تو کوئی حرج نہیں ۔دوسرا سرجن کہتا ہے کہ اس مریض کو شوگر سے کوئی خطرہ نہیں ٹی بی نے اس کے پھیپھڑے ناکارہ کر دیئے ہیں۔جب تک ہم یہ طے نہیں کریں گے کہ علاج کے ضمن میں فیصلے کا حتمی اختیار کس کے پاس ہے یا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے دو ’’استادوں‘‘ میں سے ایک کو گاڑی چلانے کا اختیار نہیں دیں گے،یہ کھیل تماشا کسی نہ کسی صورت جاری رہے گا۔ہم نے آج تک ماضی کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا اور مجھے پوری امید ہے کہ آئندہ بھی کچھ سیکھنے کی زحمت نہیں کریں گے ،اس لئے یہ چمن یوں ہی رہے گا۔خدا نہ کرے کہ ڈرائیوروں کی اس کھینچا تانی کے باعث ریاست کی گاڑی ایک بار پھر کسی ایسے کھڈے میں جا گرے جس سے نکلنے میں 11سال لگ جائیں لیکن مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے یہ گاڑی پھر کسی حادثے کا شکار ہونے والی ہے،اس لئے آپ سب سے گزارش ہے کہ سیٹ بیلٹ باندھ لیں اور آنکھیں بند کر لیں۔
تازہ ترین