نیو یارک میں دیگر مسلمان ممالک کے لیڈرز کے ساتھ اور اگلے روز واشنگٹن میں علیحدہ ا پنے COAS کو ساتھ لے کر شہباز شریف کی ٹرمپ سے ملاقات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن تفصیلی گفتگو کیا ہوئی اس کے بارے محدود اطلاعات ہیں۔ ہمارے تجزیے کے مطابق پہلی گروپ میٹنگ میںمین ٹاپک غزہ ہی رہا ہو گا۔ دوسری ملاقات میں غزہ اور مقبوضہ کشمیر موضوعات گفتگو ہوں گے۔ یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ صدر ٹرمپ جو کچھ بھی کر رہےہیں۔ اس کے مقاصد صرف 2ہیں پہلا غزہ کی زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا، دوسرا فلسطینیوں کے ساتھ اس ناجائز سلوک کے باوجود نوبل پرائز کی کمپین چلائے رکھنا۔ واضح رہے کہ اسرائیل ہر روز تقریباً 100فلسطینی غزہ میں شہید کر رہا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم شہباز شریف کے ذہن میں 2مقاصد ہوں گے۔ پہلا غزہ کو بچانے کے لیے امریکہ کو کچھ کرنے پر آمادہ کرنا اور دوسرا انڈیا کی طرف سے پاکستان پر حملے کی بجائے انڈیا سے مقبوضہ کشمیر کو حقوق دلوانا۔ پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ دو باتیں same وقت موجود ہیں۔ پہلی چیز صدر ٹرمپ کا نوبل پرائز حاصل کرنے کا شوق اور دوسری چیز پاک انڈیا جنگ رکوانے میں ٹرمپ کا کردار قبول کرنے سے انڈیا کا انکار۔ ہم جنگ رکوانے پر جتنا شکریہ ادا کریں گے انڈیا اتنا ہی ٹرمپ کے کسی قسم کے کردار سے انکاری ہوگا۔ نتیجتاً ٹرمپ کے دل میں ہمارے لیے اچھے جذبات جبکہ انڈیا کے لیے منفی جذبات پیدا ہوتے جائیں گے۔
بروز جمعہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں دیگر کے علاوہ 4ایشوز کو بہت خوبصورتی سے اجاگر کیا۔ پاک بھارت ٹینشن، غزہ، پاک افغانستان مسائل اور موسمیاتی تبدیلی۔ اس حوالے سے ان کی یہ بہترین تقریر تھی کیونکہ ماضی میں اس طرح کی تقاریر میں وہ جھنجھلائے ہوئے لگتے تھے۔ اس دفعہ باڈی لینگویج بھی بہت مناسب تھی۔ یقیناً یہ ایک well-rehearsed تقریر تھی۔ ان ٹیکنیکل حوالوں سے ان کے سیاسی کیریئر کی یہ نمبر ون تقریر قرار دی جا سکتی ہے۔ شہباز شریف نے پہلگام واقعہ کی غیر جانب دار تحقیق کا ذکر کر کے ایک بار پھر گیند انڈیا کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ ان کا لب و لہجہ اور ادائیگی بالکل سو فیصدیہ تاثر دے رہی تھی کہ وہ حقیقت بیان کر رہے ہیں اور پاکستان کا کیس سچائی پر مبنی ہے۔ اسی طرح انہوں نے کشمیر کا کیس بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کیا کہ Self Determination کشمیریوں کا حق ہے۔ سندھ طاس معاہدہ معطل کر کے انڈیا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ انڈیا کے ساتھ ہر معاملے پر مذاکرات کے لیے تیار ہونےکا کہہ کر ڈپلومیسی کے حوالے سے شہباز نے اپنا اپر ہینڈ قائم کر لیا۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستانی افواج اور صدر ٹرمپ کی خوب تعریف کی۔ ان کی تقریر کا نقطہ عروج یہ تھا ’’جنگ جیت چکے ہیں، امن جیتنے کے خواہاں ہیں‘‘۔ فلسطین کے حوالے سے شہباز شریف نے خوب کہا کہ اسرائیل کو 1967 سے پہلے والے بارڈرز قبول کرنا ہونگے۔1988ء میں پاکستان فلسطینی ریاست کو Recognize کرنیوالا پہلا ملک تھا اور اب بھی ہم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس طرح کی سچی باتیں دہرا کر شہبازشریف نے فلسطینیوں، پاکستانی عوام اور ایرانی بھائیوں کے دل میں مزید جگہ بنا لی ہے۔
انہوں نے مغربی جمہوریتوں کو پسند آنے والی بات بڑے واضح طریقے سے کہہ دی کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی افغانستان کی طرف سے پاکستان کو تکلیفیں پہنچنے کا ذکر کر دیا اور TTP اور مجید بریگیڈ وغیرہ کو بڑی خوبصورتی سے بے نقاب کیا اور جائز طور پر اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کی حکومت اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ اسرائیل کے حوالے سے انہوں نے اس بین الاقوامی پلیٹ فارم سے بہت بڑی بات کہہ دی کہ فلسطین کو آزاد ہونا چاہیے۔ اس سے قبل پاکستان کی پالیسی رہی ہے کہ 2ریاستی حل پر عمل کیا جائے۔ مگر اس دفعہ وزیر اعظم پاکستان نے پورے فلسطین کی آزادی کی بات کر دی ہے اور کہا کہ اسرائیل نے بے شرمی سے غزہ کے معصوموں کے خلاف کمپین چلا رکھی ہے۔ شہباز شریف نے غزہ میں جنگ بندی پر زور دیا البتہ میرا نظریہ یہ ہے کہ جنگ تو دو طرفہ ہوتی ہے۔ موجودہ صورت حال میں اسرائیل کی مسلح افواج نہتے اور بے یار و مددگار فلسطینیوں کے خلاف یکطرفہ قتلِ عام کر رہی ہیں۔ اس لیے اسے جنگ کی بجائے نسل کشی قرار دیا جانا چاہیے۔ میرے علم کے مطابق بین الاقوامی لیول پر ایک اور تجویز گردش کر رہی ہے کہ غزہ میں The Gaza International Transitional Authority قائم کر کے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو اس کا سربراہ بنایا جائے۔ ایسی صورت میں فلسطینیوں کی آزادی کا کیا بنے گا؟
شہباز شریف نے بجا کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کو بڑے نقصان کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے لیے گئے قرضے ہماری معیشت کے لیے تباہ کن ہیں۔ ماحولیاتی بحران کا سامنا ساری دنیا مل کر کر سکتی ہے۔ تمام ممالک تعاون کریں۔ وزیر اعظم پرامید نظر آئے کہ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں پاک امریکہ تعلقات زیادہ مستحکم ہوں گے اور ٹرمپ کو امن کا داعی قرار دیا۔ اگرچہ ایسا کہنا پاکستان کی سفارتکاری ہے۔ تاہم ہم وزیر اعظم کویاد دلائے دیتے ہیں کہ کچھ پتہ نہیں کب ٹرمپ کا موڈ تبدیل ہو جائے اور وہ کسی اور کی طرف رخ کر لیں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ امریکی اندرونی ملکی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں صدر ٹرمپ دوست تبدیل کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ تاہم پاکستان کو عظیم ملک بنانے کا شہباز شریف کا عزم ہم سب کو بہت اچھا لگا۔