کچھوے اور خرگوش کا قصّہ بہت پرانا ہے۔ ہمیں بچپن میں یہ کہانی سُنائی جاتی اور ترغیب دی جاتی کہ چاہے آہستہ آہستہ چلیں، تھوڑا تھوڑا کام کریں، لیکن اگر مستقل مزاجی سے کریں گے، تو کام یابی مقدّر ہوگی۔نوّے کی دہائی میں یہ کہانی نئے انداز میں پیش کی گئی اور وہ یوں کہ خرگوش طعنے سُنتے تنگ آگیا، تو کچھوے کو دوبارہ دوڑ کی دعوت دی اور اِس بار منزل پر پہنچ کر دَم لیا۔ یوں ایک نئے اسلوب نے جنم لیا کہ اب دَور ہے تیزی اور مستقل مزاجی کا، تب ہی کام یابی حاصل ہوگی۔
کچھوا صدیوں کی برتری کھو جانے پر رنجیدہ تھا۔ کچھ عرصے بعد وہ خرگوش کے پاس گیا اور کہا۔’’آؤ، ایک بار پھر ریس لگاتے ہیں، لیکن ٹریک کا انتخاب میرا ہوگا۔‘‘ خرگوش نے کہا۔’’ ٹھیک ہے، اب مَیں سیکھ چُکا ہوں کہ منزل پر پہنچنے سے قبل نہیں رُکنا۔‘‘کچھوے نے ایسے ٹریک کا انتخاب کیا، جس میں دریا آتا تھا۔
خرگوش ریس والے دن ٹریک پر دوڑتا ہوا جب دریا تک پہنچا، تو پریشان ہو گیا کہ دریا کیسے عبور کرے اور وہیں بیٹھ گیا۔ کچھوا آہستہ آہستہ آیا، دریا تیر کر عبور کیا اور ایک بار پھر دوڑ جیت کر کھویا اعزاز حاصل کر لیا۔ یوں کہانی نے نیا رُوپ دھار لیا کہ جیت کے لیے اپنی خوبیوں(Strenghts) سے آگہی اور انہیں استعمال کرنے کا قرینہ جاننا ضروری ہے۔
اِس صدی کے آغاز میں کچھوے اور خرگو ش کی ایک بار پھر میٹنگ ہوئی اور دونوں نے طے کیا کہ اُسی ٹریک پر ایک بار پھر دوڑیں گے، لیکن اِس بار خشکی پر خرگوش، کچھوے کو اُٹھا کر دوڑے گا اور دریا پار کرتے ہوئے خرگوش، کچھوے پر سوار ہو جائے گا تاکہ دونوں منزل پر جلد از جلد پہنچ جائیں۔ اور یوں ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔
تعاون کا دَور، ہاتھ ملا کر چلنے کا دَور تاکہ ایک دوسرے کی صلاحیتوں کا فائدہ اِس انداز سے اُٹھایا جائے کہ فریقین کی کم زوریاں ماند پڑ جائیں اور ہاتھ ملا کر چلنے والے کام یابی و کام رانی کے ساتھ منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے کا سُنتے ہی یہ کہانی یاد آگئی اور یوں محسوس ہوا کہ اگر دونوں ممالک اِس موقعے سے فائدہ اُٹھائیں، تو سعودی عرب اپنی دفاعی ضروریات ایک قابلِ بھروسا ساتھی، پاکستان کی مدد سے پوری کرسکتا ہے اور پاکستان اپنے معاشی مسائل پر اپنے دیرنیہ دوست، سعودی عرب کی مدد سے قابو پاسکتا ہے۔
یہ دونوں ممالک کے لیےwin-win صورتِ حال ہے۔اِس میں دونوں کی جیت ہے ۔ اِس پر مستزاد یہ کہ پاکستانیوں کے لیے یہ ایک دینی، مذہبی اور روحانی خوشی و راحت کا بھی سبب ہے، کیوں کہ تمام پاکستانی حرمین شریفین کی خدمت و حفاظت کو اپنے ایمان کا حصّہ اور اُخروی زندگی کی کام یابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ایک طبقہ اِس معاہدے کو اتحادِ اُمّت کا پیش خیمہ بتا رہا ہے اور دوسرا، محض ضروریات پر مبنی دوطرفہ معاہدہ۔لیکن اگر توازن بَھری نظر سے دیکھا جائے، تو اتحادِ اُمّت کا پہلو فی الوقت موہوم لگتا ہے کہ اگر ایسا ہونا ہوتا تو دوحا میں ہونے والی حالیہ او آئی سی کانفرنس میں اُس کی داغ بیل پڑ چُکی ہوتی۔دوسری جانب وہ طبقہ ہے، جو اِسے خالصتاً مالی فوائد سے جوڑ رہا ہے، مگر وہ بھی چند پہلو نظر انداز کر رہا ہے۔اُن کی رائے کی بنیاد تاریخی حقائق ہیں، جو کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔نوّے کی دہائی پاکستان کے لیے سخت پابندیوں سے بَھرپور تھی۔
اُس مشکل دَور میں سعودی عرب کا مالی تعاون پاکستان کے لیے اہم سہارا ثابت ہوا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔اس کے ساتھ، اسرائیل کے دوحا پر حملے نے عرب ممالک، بشمول سعودی عرب کو غیر محفوظ بنا دیا۔ اِس لیے دوسرا طبقہ اِن دو وجوہ کی بنا پر اِس معاہدے کو دوطرفہ ضروریات کا نتیجہ قرار دے رہا ہے لیکن پاکستانیوں کی عمومی خوشی اور جذباتی لگاؤ کو نظر انداز کر رہا ہے۔ فیصلہ سازوں سے لے کر ہر خاص و عام پاکستانی، اِس معاہدے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام تصوّر کر رہا ہے اور اِس بات پر نہال ہے کہ ہم خادمینِ حرمین شریفین میں شامل ہو گئے ہیں۔
اب اگر اِن دو انتہائی نقطۂ نظر کے بین بین صُورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، تو چند اہم پہلوؤں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔اِس معاہدے نے دُنیا کو ایک واضح پیغام دیا ہے اور وہ یہ کہ ہماری دنیا اب یونی پولر نہیں رہی۔ اب دُنیا کی پالیسیز صرف امریکا کے اشارے پر تشکیل نہیں پائیں گی، بلکہ پاور کوریڈورز اور بھی ہیں، جن پر دُنیا بھروسا کر سکتی ہے۔ اگر اِس معاہدے کی گہرائی دیکھی جائے، تو یہ چین کی طاقت وَر ٹیکنالوجی کے بغیر وجود میں نہ آتا۔
حالیہ پاکستان اور بھارت کی جنگ نے ثابت کیا کہ چین کی ٹیکنالوجی اور پاکستان کی مہارت پر دُنیا بھروسا کر سکتی ہے، جس نے مغربی ٹیکنالوجی کو مات دے دی۔ اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے اِس امتزاج پر بھروسا کیا اور علی الاعلان پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر لیا۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور پاکستان کو ایک ازلی دشمن بھارت کا سامنا ہے، جو ہر پَل اسے تباہ کرنے کے درپے ہے۔
ہماری ساری تیاری بشمول ایٹمی صلاحیت، بھارتی جارحیت کی روک تھام اور مُلک کی حفاظت کے لیے ہے۔ اِس لیے ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں اور بیانات سوچ سمجھ کر دیں تاکہ بین الاقوامی دُنیا میں ہماری ایٹمی صلاحیت سے متعلق شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں۔ بین الاقوامی فوجی اڈّے پاکستان کو مضبوطی دیں گے اور ازلی دشمنوں، بشمول اسرائیل کو، بوقتِ ضرورت سبق سِکھانے کی صلاحیت بھی۔
اِس بات سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے مالی و معاشی فوائد کا بھی ذریعہ بنے گا اور بننا بھی چاہیے، لیکن مالی فوائد کے مصارف میں جدید سے جدید اسٹیلتھ لڑاکا طیاروں کا حصول، خلائی علوم میں نمایاں پیش رفت، جدید ترین علوم میں مہارت اور انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کو بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ ایک توانا پاکستان، حرمین شریفین کی خدمت کے لیے موجود رہے۔
تاریخی طور پر پاکستان نے امریکا اور چین جیسے ممالک کے ساتھ، جو ایک دوسرے کے خلاف ہیں، تعلقات کام یابی سے قائم رکھے، بلکہ بعض مواقع پر تو دونوں ممالک میں رابطے کا ذریعہ بھی بنا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان مخالف فریقین کے ساتھ بھی تعلقات اُستوار کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ اِسی طرح پاکستان کو عرب ممالک کے آپس کے اختلافات ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایسی خارجہ پالیسی اختیار کرنی ہوگی، جس میں تمام عرب اور غیر عرب ممالک سموئے جاسکیں اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھیں۔
دوسری طرف عرب ممالک میں بھارت کے اثرو نفوذ سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سعودی عرب پہلے ہی بھارت میں100 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چُکا ہے، جو اُسے بہرحال غارت تو نہیں ہونے دے گا۔ اس کے ساتھ، متحدہ عرب امارات میں تقریباً 27ایکٹر پر محیط مندر 2024ء میں مکمل ہوا، جو متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی سطح کا استعارہ ہے۔
اِس لیے پاکستان کو اِس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ مسلمان ہونے کے ناتے عرب ممالک سب کچھ بھول کر ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ سو، پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفّظ کرنا ہے اور تمام معاہدات مدّنظر رکھ کر پالیسی سازی کرنی ہے تاکہ توقّعات کا محل دھڑام سے گرنے نہ پائے اور عرب دنیا کے ساتھ دُور رَس تعاون قائم رہے، جو نتیجتاً اُمّتِ مسلمہ کے لیے بھی فائدے کا باعث بنے۔