• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحت مند عورت نہ صرف اپنے خاندان کی پرورش، تربیت اور خوش حالی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، بلکہ معاشرتی استحکام اور مُلکی ترقّی کی بھی ضامن ہے۔ لہٰذا، خواتین کے طبّی مسائل بروقت حل نہ کیے جائیں، تو اس کے سنگین اثرات آئندہ نسلوں، ثقافتی اقدار اور قومی تعمیر و ترقّی پر مرتّب ہوتے ہیں۔ 

نفسیاتی دباؤ یا سماجی مسائل کی صُورت میں گھریلو خواتین اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت پر مکمل توجّہ نہیں دے پاتیں، جو سماجی رویّوں اور اقدار میں بگاڑ کا ایک سبب ہے۔ اِس لیے خواتین کی صحت میں سرمایہ کاری دراصل، معاشرتی ترقّی اور استحکام کے لیے سرمایہ کاری ہے۔

سرویکل سرطان : سرطان آج کی دنیا میں صحتِ عامّہ کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق 2022ء میں دنیا بَھر میں سرطان کے تقریباً 20ملین نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ9.7 ملین افراد اِس مرض کے باعث جاں بحق ہوئے۔ سرطان کی عام اقسام میں پھیپھڑوں، چھاتی، کولوریکٹل، پروسٹیٹ اور خواتین میں بریسٹ کینسر اور سرویکل کینسر شامل ہیں۔ 

ان میں سے تقریباً70 فی صد کیسز، کم اور متوسّط آمدنی والے ممالک سے سامنے آتے ہیں، جہاں جدید تشخیص، ویکسی نیشن اور علاج کی سہولتیں محدود ہیں۔ عالمی سطح پر کینسر نہ صرف صحت کا مسئلہ ہے، بلکہ یہ معیشت پر بھی بھاری بوجھ ڈالتا ہے۔ براہِ راست علاج کے اخراجات کے ساتھ، مریضوں کے کام کرنے کی صلاحیت کھونے سے قومی ترقّی متاثر ہوتی ہے۔ کینسر کے مریض اور اُن کے خاندان شدید نفسیاتی دباؤ، سماجی تنہائی اور معیارِ زندگی میں کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

عالمی اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں ہر سال178,000 سے زائد سرطان کے نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جب کہ اس کے سبب117,000 سے زیادہ اموات ہوجاتی ہیں۔ خواتین میں بریسٹ کا کینسر عام ہے، اس کے بعد سرویکل، اووریئن اور سرطان کی دیگر اقسام ہیں۔ سرویکل کینسر، پاکستان میں خواتین کو لاحق ہونے والا تیسرا بڑا کینسر ہے اور15 سے 44سال کی خواتین میں یہ دوسرے نمبر پر ہے۔ 

ہر سال تقریباً5,000 نئے سرویکل کینسر کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جب کہ 3,200 خواتین اس بیماری سے جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ اندازاً68.6ملین پاکستانی خواتین کو اِس سرطان کا خطرہ لاحق ہے اور اس کی بڑی وجہ اسکریننگ، ویکسی نیشن کی کمی، آگاہی کا فقدان اور تاخیر سے تشخیص ہے۔

سندھ کی صُورتِ حال اور ایچ پی وی ویکسی نیشن مہم: سندھ میں سرطان کے کیسز مُلک کے دیگر حصّوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں، خصوصاً کراچی میں، جہاں آبادی کا پھیلاؤ، ماحولیاتی آلودگی اور طرزِ زندگی کے منفی اثرات نمایاں ہیں۔ سندھ کینسر رجسٹری کے مطابق، کراچی میں خواتین میں بریسٹ اور سرویکل کینسرز سرِ فہرست ہیں، جب کہ دیہات میں تو آگاہی کی کمی اور سہولتوں کے فقدان کے سبب صُورتِ حال مزید خراب ہے۔

ستمبر2025 ء میں حکومتِ سندھ نے پہلی بار بڑے پیمانے پر ایچ پی وی ویکسی نیشن مہم شروع کی، جس کا ہدف4.1 ملین 9 سے 14 سال کی بچیوں کو ویکسین فراہم کرنا تھا۔ پہلے ہفتے میں صوبے بَھر میں 57فی صد کوریج حاصل ہوئی، کچھ اضلاع، جیسے نوشہرو فیروز(89) اور قمبر، شہداد کوٹ (88) نے شان دار کارکردگی دِکھائی، جب کہ کراچی کے کچھ علاقوں جیسے کیماڑی میں کوریج صرف12 فی صد رہی۔ یہ مہم مستقبل میں سرویکل کینسر کے کیسز کم کرنے کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔

سروکس (Cervix) کیا ہے؟ سروکس بچّہ دانی (Uterus) کا نچلا حصّہ ہے، جو اندامِ نہانی (vagina) سے جُڑتا ہے۔ یہ خواتین کے تولیدی نظام میں ایک اہم راستہ ہے، جہاں حمل کے دَوران بچّہ دانی بند رہتی ہے اور زچگی کے وقت کُھلتی ہے تاکہ بچّہ دنیا میں آئے۔ سروکس کی صحت، خواتین کی مجموعی صحت کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے، کیوں کہ یہاں پیدا ہونے والی کسی بھی غیر معمولی تبدیلی (جیسے خلیوں کی غیر قابو بڑھوتری) سے سرویکل کینسر ہو سکتا ہے۔

سرویکل کینسر اور اُس کی اقسام : سرویکل سرطان، سروکس کے خلیوں میں پیدا ہونے والا کینسر ہے۔ یہ عام طور پر آہستہ آہستہ بڑھتا اور کئی سال لگاتا ہے۔ سب سے عام قسم اسکوامس سيل کارسينوما ہے، جو سروکس کی بیرونی سطح پر بنتی ہے، جب کہ دوسری قسم ايڈينوکارسينوما ہے، جو سروکس کی اندرونی غدودی خلیات میں پیدا ہوتی ہے۔

وجوہ اور خطرے کے عوامل: ہیومن پیپیلوما وائرس(HPV) کا انفیکشن، سرویکل کینسر کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ دیگر وجوہ میں٭محفوظ جنسی رویّہ اختیار نہ کرنے سے خطرہ بڑھتا ہے۔ ٭ کم زور مدافعتی نظام، جیسے HIV/AIDS /HEPATITIS-B & C کی موجودگی۔ ٭تمباکو نوشی۔ ٭طویل عرصے تک مانع حمل گولیوں کا استعمال۔ ٭اسکریننگ نہ کروانا، وغیرہ شامل ہیں۔

علامات اور بیماری کا بڑھنا: ابتدائی مراحل میں سرویکل کینسر کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، لیکن کچھ عرصے بعد یہ علامات سامنے آ سکتی ہیں: ٭ازدواجی تعلق یا ماہ واری کے درمیان غیر معمولی خون کا آنا۔ ٭اندامِ نہانی سے بدبو دار رطوبت کا اخراج- ٭پیڑو یا کمر کے نچلے حصّے میں درد۔ ٭پیشاب یا پاخانے میں دشواری(اگر بیماری پھیل جائے)۔یہ کینسر سالوں تک آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔ پہلے pre cancerous changes آتی ہیں، پھر یہ invasive cancer میں بدلتا ہے، جو رحم اور جسم کے دیگر حصّوں میں پھیل جاتا ہے۔

مرض کی تشخیص: اِس مرض کی تشخیص کے لیے سب سے اہم ٹیسٹ Pap smear ہے، جس میں سروکس سے خلیات کا نمونہ لے کر خردبین سے جانچا جاتا ہے، جب کہ HPV DNA ٹیسٹ وائرس کی موجودگی کی نشان دہی اور خطرے کا تعیّن کرتا ہے۔ اگر غیر معمولی نتائج سامنے آئیں، تو کولپواسکوپی کی جاتی ہے، جس میں سروکس کو قریب سے دیکھ کر شبے والے حصّے سے بائیوپسی لی جاتی ہے تاکہ حتمی تشخیص کی جا سکے۔

بچاؤ کی حکمتِ عملی: ٭ایچ۔پی۔وی ویکسی نیشن: یہ ویکسین90فی صد سے زیادہ کیسز روکنے میں مددگار ہے اور اس کا بہترین وقت9 سے14 سال کی عُمر ہے، مگر ڈاکٹر کے مشورے سے بڑی عُمر کی خواتین بھی ویکسین لگوا سکتی ہیں۔ یہ ویکسین مَردوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے تاکہ وائرس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔

٭فوری تشخیص: 30 سال سے زائد عُمر کی خواتین، خصوصاً50 برس سے زیادہ عُمر کی خواتین کا ہر3 سال میں Pap smear یا ہر5 سال میں ایچ۔پی۔وی ٹیسٹ کروائیں اور قریبی سندھ گورنمنٹ اسپتال کے شعبہ امراضِ نسواں سے رابطہ کریں یا کسی ماہر کوالی فائیڈ معالج سے اپنا معاینہ کروائیں تاکہ بر وقت تشخیص اور علاج معالجہ ہو سکے-٭رویّوں کی تبدیلی: اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے ساتھ، صحت بخش غذا، ورزش اور مناسب نیند بہت ضروری ہے۔٭تمباکو نوشی سے پرہیز :تمباکو نوشی، سرویکل کینسر کے امکانات کو دُگنا کر سکتی ہے۔نوجوان لڑکیوں میں ویپ(Vape) یا الیکٹرانک سگریٹ کا بڑھتا رجحان مستقبل میں سرویکل کینسر کی مریضوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے-عوامی آگاہی :سرویکل کینسر کو مکمل طور پر روکا جانا ممکن ہے۔ 

بروقت ایچ۔پی۔وی ویکسی نیشن، باقاعدہ اسکریننگ، محفوظ طرزِ زندگی اور سماجی آگاہی اس سے بچاؤ کے بنیادی ستون ہیں۔ پاکستان، خاص طور پر سندھ میں شروع کی گئی ویکسی نیشن مہمّات ایک مثبت قدم ہے، مگر اس کی کام یابی کے لیے معاشرتی تعاون، والدین کی شمولیت اور حکومت کی مستقل حکمتِ عملی ضروری ہے۔

ہیومن پیپلوما وائرس،سرویکل کینسر اور ایچ۔پی۔وی ویکسین کا باہمی تعلق: ہیومن پیپلوما وائرس (HPV) ایک نہایت عام، مگر پیچیدہ وائرس ہے، جو انسانی جِلد اور جنسی اعضاء پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کی بیسیوں ذیلی اقسام ہیں، جن میں اکثر بے ضرر ہیں، لیکن بعض مہلک اقسام ایسی ہیں، جو اگر طویل عرصے تک جسم میں رہیں، تو خلیاتی ساخت میں ایسی تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہیں، جو بالآخر سرطان کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔عالمی سائنسی تحقیق نے بارہا ثابت کیا کہ سرویکل کینسر کے بیش تر واقعات کی بنیادی جڑ یہی وائرس ہے۔ 

چناں چہ یہ کہنا بجا ہے کہ ایچ۔پی۔وی سرویکل کینسر کے آغاز اور ارتقا میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک اہم امر یہ بھی ہے کہ سرویکل کینسر ایسا واحد سرطان ہے، جس کی پیش بندی ویکسین کے ذریعے کی جا سکتی ہے، جب کہ دیگر تمام کینسرز کے لیے تاحال کوئی ایسی مؤثر ویکسین میسّر نہیں، جو ابتدا ہی میں روک تھام کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت اور ماہرینِ امراضِ نسواں اِس حقیقت کو ایک غیر معمولی پیش رفت تصوّر کرتے ہیں۔ 

ایچ۔پی۔وی ویکسین ان خطرناک اقسام کے خلاف مدافعتی ڈھال فراہم کرتی ہے، جوسرویکل کینسر کا موجب بنتی ہیں۔ جب یہ ویکسین نوعُمر بچیوں کو فراہم کی جاتی ہے، تو اس کے اثرات انتہائی مؤثر ثابت ہوتے ہیں، کیوں کہ اس عُمر میں عموماً وائرس کے اثرات سے واسطہ نہیں پڑا ہوتا۔ متعدّد ممالک کے تجربات سے واضح ہوا کہ وسیع پیمانے پر ویکسی نیشن کے نتیجے میں سرویکل کینسر کی شرح اور اس سے ہونے والی اموات میں نمایاں کمی آئی ہے۔

ایچ۔پی۔وی ویکسین کی تخلیق کا آغاز بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ہوا اور اکیسویں صدی کے اوائل میں اس کی پہلی کھیپ طبّی منظوری سے گزری۔ ترقّی یافتہ ممالک نے اسے اپنے قومی حفاظتی ٹیکا جات پروگرامز میں شامل کیا۔ بعد ازاں، بین الاقوامی تنظیموں مثلاً عالمی ادارۂ صحت، یونیسف اور گاوی (GAVI) نے مالی و تیکنیکی تعاون فراہم کر کے اسے ترقّی پذیر ممالک تک پہنچایا۔ 

اب تقریباً150سے زیادہ ممالک نے ایچ۔پی۔وی ویکسین کو اپنے حفاظتی پروگرامز کا حصّہ بنایا ہے یا بڑے پیمانے کی مہمّات کے ذریعے عوام تک رسائی حاصل کی ہے۔ یہ ویکسین مختلف ذرائع مثلاً اسکولز، صحت مراکز اور کمیونٹی پروگرامز کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچیوں کو تحفّظ حاصل ہو۔

پاکستان نے بھی15 ستمبر2025 ء سے پہلی مرتبہ قومی سطح پر ایچ۔پی۔وی ویکسی نیشن مہم کا آغاز کیا۔ اس کا مقصد 9 تا 14 برس کی تقریباً1.3کروڑ لڑکیوں کو ویکسین فراہم کرنا ہے تاکہ مستقبل میں سرویکل کینسر کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکے۔ صوبۂ سندھ میں یہ مہم15تا30ستمبر جاری رہی، جس کے دوران تقریباً41لاکھ بچیوں کو ہدف بنایا گیا۔ 

اِس اقدام میں وفاقی و صوبائی محکمۂ صحت، ای پی آئی پروگرام اور بین الاقوامی ادارے جیسے گاوی، یونیسف اور ڈبلیو ایچ او شریک ہیں۔ ویکسین کی فراہمی کے لیے اسکولز، فکسڈ مراکز، آؤٹ ریچ مقامات اور موبائل ٹیمز کو منظّم کیا گیا تاکہ شہری و دیہی، دونوں علاقوں کی بچیاں اس سے استفادہ کر سکیں۔

ابتدائی اعداد و شمار سے ظاہر ہوا کہ مہم کے آغاز میں کوریج مختلف علاقوں میں مختلف رہی۔ مثلاً کراچی میں ہدف شدہ بچیوں میں تقریباً33 فی صد کو ویکسین فراہم کی گئی، جب کہ اسلام آباد میں یہ شرح18 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ 

یہ تفاوت اِس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بعض علاقوں میں سماجی آگاہی، رسائی اور قبولیت کے چیلنجز باقی ہیں اور مزید توجّہ و منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ مہم تسلسل کے ساتھ جاری رہی اور ایچ۔پی۔وی ویکسین کو معمول کے حفاظتی ٹیکوں کے قومی پروگرام میں شامل کر لیا گیا، تو آئندہ دہائیوں میں پاکستان میں سرویکل کینسر کے نئے واقعات اور اس سے وابستہ اموات میں خاطر خواہ کمی متوقّع ہے۔ 

اس سے نہ صرف خواتین کی صحت اور معیارِ زندگی میں بہتری آئے گی، بلکہ صحت کے شعبے پر مالی بوجھ بھی کم ہوگا۔ ساتھ ہی اگر پیپ سمیئر اور دیگر اسکریننگ سہولتیں بہتر بنائی جائیں، تو وہ خواتین جنہیں ویکسین نہیں مل سکی یا جو پہلے ہی وائرس سے متاثر ہو چُکی ہیں، اُن کی بروقت تشخیص اور علاج ممکن ہو سکے گا۔

والدین کے لیے پیغام: والدین اور برادریوں کے نام ایک واضح پیغام یہ ہے کہ ایچ۔پی۔وی ویکسین سے متعلق پھیلائی جانے والی جھوٹی اور بے بنیاد باتوں پر ہرگز توجّہ نہ دیں۔ بعض عاقبت نااندیش اور لاعلم لوگ یہ افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ یہ ویکسین لڑکیوں میں بانجھ پن کا سبب بنتی ہے یا یہ مسلمانوں کے خلاف کسی مذموم سازش کا حصّہ ہے، حالاں کہ یہ تمام دعوے سائنسی حقائق اور عالمی تحقیق کے خلاف ہیں۔ 

عالمی ادارۂ صحت، یونیسف اور پاکستان کے مستند طبّی ماہرین نے بارہا وضاحت کی ہے کہ ایچ۔پی۔وی ویکسین مکمل طور پر محفوظ، مؤثر اور حلال ہے۔ جب کہ اس کا مقصد صرف اور صرف خواتین کو رحمِ مادر (سرویکل) کے کینسر جیسے مہلک مرض سے بچانا ہے۔

چند اہم، ناگزیر اقدامات: پاکستان میں ویکسی نیشن کی زیادہ سے زیادہ کوریج یقینی بنانے کے لیے حکومت کو ایک جامع اور مربوط حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے، جو صرف مہم چلانے کی بجائے طویل مدّتی حل پر مرکوز ہو۔ سب سے اہم قدم ایک مرکزی ڈیٹا مانیٹرنگ سسٹم قائم کرنا ہے، جہاں ویکسی نیشن کا تمام ڈیٹا ایک جگہ جمع کیا جائے۔ 

یہ سسٹم نہ صرف ویکسین لگوانے والوں کا ریکارڈ رکھے گا، بلکہ ان علاقوں کی بھی نشان دہی کرے گا، جہاں کوریج کم ہے تاکہ وہاں خصوصی مہمّات چلائی جا سکیں۔ اس سسٹم میں ہر فرد کا ریکارڈ اس کے قومی شناختی کارڈ یا بے فارم نمبر سے منسلک ہونا چاہیے تاکہ ڈیٹا کی درستی یقینی ہو اور ایک سے زیادہ بار اندراج کی غلطی سے بچا جا سکے۔ علاوہ ازیں، کمیونٹی کی شمولیت کے لیے ایک مستقل حکمتِ عملی اختیار کرنی ہوگی۔ 

اس میں مقامی رہنماؤں، مذہبی شخصیات، اسکول اساتذہ اور محلّے کے ڈاکٹرز کو شامل کیا جائے تاکہ ویکسین سے متعلق پھیلنے والی غلط معلومات کا ازالہ کیا جا سکے۔ صحت کے عملے کو تربیت دینا بھی ضروری ہے تاکہ وہ نہ صرف ویکسین لگائیں بلکہ کمیونٹی کے سوالات اور خدشات کا اعتماد کے ساتھ جواب بھی دیں۔

خصوصاً، خواتین صحت ورکرز (LHWs) کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور انہیں خاص تربیت دی جائے تاکہ وہ خاندانوں، بالخصوص خواتین اور بچّوں تک بہتر رسائی حاصل کر سکیں۔ حکومت کو مواصلاتی مہمّات میں تنوّع لانا ہوگا۔ مقامی زبانوں میں سوشل میڈیا، مساجد میں اعلانات اور پرائمری اسکولوں میں والدین کے ساتھ سیشنز شامل ہونے چاہئیں۔ نیز، مہم کے بعد ویکسین کو معمول کے حفاظتی ٹیکہ جات میں شامل کر کے ہر آنے والی نسل کو مستقل تحفّظ فراہم کیا جائے۔ ( مضمون نگار، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ اور چیف میڈیکل آفیسر، سروسز اسپتال کراچی، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سندھ ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید
صحت سے مزید