پچھتاوا ……
دادا جی اکثر یہ کہانی سنایا کرتے تھے:
’’بیٹا، موت کے وقت ہر فرد کسی نہ کسی بات پر پچھتاوا ظاہر کرتا ہے،
کامیاب اور مصروف افراد کو یہ غم ستاتا ہے
کہ وہ اپنے اہل خانہ کیساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے۔
غریب اور مفلس افراد کو یہ غم کھا رہا ہوتا ہے
کہ اُنکی موت کے بعد اُنکے اہل خانہ کا کیا ہوگا؟
البتہ صوفی ہمیشہ لمحہ حال میں رہتا ہے، موت کے سمے
نہ تو وہ ماضی کا پچھتاوا ظاہر کرتا ہے، نہ ہی مستقبل کے اندیشے،
بلکہ وہ کہتا ہے ؛ آج موسم کتنا خوشگوار ہے۔‘‘
جب دادا بستر مرگ پر تھے، میں اُن کے قریب جا کھڑا ہوا،
انھوں نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ مسکرائے، اور پوچھا:
’’کہانی سنو گے؟‘‘اور پھرآنکھیں موند لیں۔