• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی تاریخ سات دہائیوں پر محیط ہے مگر حالیہ دفاعی معاہدہ ان روابط کو ایک نئے دور میں داخل کر رہا ہے۔پاکستان کے قیام کے فوراً بعد سعودی عرب ان چند ممالک میں شامل تھا جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا۔ مذہبی اور ثقافتی رشتے وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتے گئے اور دفاعی و اسٹرٹیجک تعاون بھی اس کا حصہ بنا۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں سعودی امداد نے پاکستان کی معیشت اور دفاعی پروگرام کو سہارا دیا۔ افغان جنگ کے دنوں میں دونوں ممالک نے امریکہ کے ساتھ مل کر ایک بڑا اسٹرٹیجک کردار ادا کیا۔ 1990ء کی دہائی میں جب پاکستان پر عالمی پابندیاں لگیں تو سعودی عرب نے تیل کی فراہمی اور مالی مدد کے ذریعے پاکستان کو سہارا دیا۔ اس تاریخی تسلسل کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ معاہدہ دراصل پرانی شراکت داری کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ایک کوشش ہے۔

یہ دفاعی معاہدہ ماضی کی نسبت زیادہ جامع اور وسیع ہے۔ اس میں فوجی مشقوں اور ہتھیاروں کے تبادلے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی، انٹیلی جنس شیئرنگ، سائبر سکیورٹی، دفاعی صنعت میں تعاون اور خطے میں مشترکہ اسٹرٹیجک لائحہ عمل شامل ہیں۔ پاکستان کیلئے یہ پہلو خاص طور پر اہم ہیں کیونکہ ماضی میں ہمارا انحصار صرف سعودی مالی امداد پر رہا ہے، لیکن اب ہمیں دفاعی صنعت اور جدید ٹیکنالوجی میں شراکت داری کا موقع ملے گا۔ پاکستان کی دفاعی صنعت میں ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی سعودی عرب کیلئے پرکشش ہے جبکہ سعودی عرب کی مالی طاقت اور جدید فوجی ساز و سامان پاکستان کیلئے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

اس معاہدے کا خطے میں سب سے زیادہ اثر چین اور بھارت پر پڑنے کا امکان ہے۔ چین پہلے ہی پاکستان کا قریبی اتحادی ہے اور اس معاہدے کو مثبت نظر سے دیکھے گا کیونکہ یہ نہ صرف امریکی دباؤ کو کم کر سکتا ہے بلکہ سعودی عرب کو بھی بیجنگ کے قریب لا سکتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی میں بھی چین نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

دوسری جانب بھارت اس معاہدے کو شک کی نگاہ سے دیکھے گا۔ بھارت نے پچھلے چند برسوں میں سعودی عرب کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کی کوشش کی ہے مگر پاکستان کے ساتھ دفاعی شراکت داری نئی دہلی کیلئے پریشانی کا باعث بنے گی۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارت مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ معاہدہ امریکہ اور اسرائیل کیلئے بھی ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔ امریکہ طویل عرصے سے سعودی عرب کو اپنا قریبی اتحادی سمجھتا رہا ہے لیکن اگر ریاض اسلام آباد کے ساتھ دفاعی تعلقات کو اس سطح تک لے جاتا ہے کہ جس سے واشنگٹن کے اثر و رسوخ میں کمی آتی ہے تو یہ امریکہ کیلئے پریشان کن ہو گا۔ اسی طرح اسرائیل کیلئے بھی یہ معاہدہ ایک دھچکا ہو گا۔ تل ابیب مشرق وسطیٰ میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی بات کر رہا تھا لیکن اگر ریاض پاکستان کے قریب ہوتا ہے تو اسرائیل کے یہ منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان چونکہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، اس لیے یہ دفاعی تعاون تل ابیب کیلئے ایک بڑا اسٹرٹیجک جھٹکا ہوگا۔

دیکھا جائے تو پاکستان اور سعودی عرب کا یہ دفاعی معاہدہ خطے میں ایک نئی تاریخ کا آغاز ہے۔ یہ معاہدہ صرف دو ملکوں کے درمیان تعاون نہیں بلکہ ایک بڑے جغرافیائی کھیل کا حصہ ہے جس میں چین، امریکہ، بھارت، اسرائیل اور دیگر عرب ممالک سب شامل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ معاہدہ کس حد تک کامیاب ہو گا؟ کیا یہ پاکستان کیلئے معاشی مواقع بھی پیدا کرے گا یا صرف دفاعی تعاون تک محدود رہے گا؟ کیا امریکہ اس پر دباؤ ڈالے گا؟ اور کیا بھارت اور اسرائیل اسے روکنے کی کوشش کریں گے؟ یہ سب سوالات مستقبل کیلئے اہم ہیں جن پر بات کرنےکیلئے ہمیں اس کالم کے دوسرے حصے کی طرف بڑھنا ہو گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس نے خطے میں نئی صف بندی کا آغاز کر دیا ہے۔ ماضی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی زیادہ تر امریکہ کے دائرے میں سمجھی جاتی تھی لیکن اب اسلام آباد ایک ایسے راستے پر چل رہا ہے جس میں بیجنگ، ریاض اور ماسکو جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ تبدیلی اس وقت اور زیادہ معنی خیز ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب قریب آ رہے ہیں، ترکی اور قطر اپنی الگ پوزیشن بنا رہے ہیں اور اسرائیل پر عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

عرب دنیا کے دیگر ممالک بھی اس معاہدے کو گہری دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور قطر کیلئے یہ معاہدہ ایک پیغام ہے کہ خطے میں طاقت کے نئے توازن بن رہے ہیں۔ مصر اور اردن جیسے ممالک جو پہلے سے سعودی عرب کے قریب ہیں وہ بھی اس تعاون کا حصہ بن سکتے ہیں۔ دوسری جانب ترکی اور ملائیشیا جیسے غیر عرب مسلم ممالک کیلئے یہ معاہدہ امید کا پہلو رکھتا ہے۔

یہ سب حقائق ہمیں اس نتیجے کی طرف لے جاتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کا یہ دفاعی معاہدہ مستقبل میں نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط کرے گا بلکہ یہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی بدل سکتا ہے۔ تاہم اصل کامیابی اس وقت ہو گی جب پاکستان اس معاہدے کو صرف فوجی تعاون تک محدود نہ رکھے بلکہ اسے معاشی اور تکنیکی ترقی کیلئے بھی استعمال کرے۔

اگر دفاعی صنعت میں شراکت داری کے ساتھ ساتھ مشترکہ تعلیمی اور تحقیقی منصوبے شروع ہوں، اگر نوجوان نسل کو اس تعاون سے فائدہ پہنچے، اگر خطے میں تنازعات کو کم کرنے کیلئے یہ معاہدہ سفارتی کردار ادا کرے تو تبھی یہ واقعی ایک نئی تاریخ ثابت ہو گا۔

تازہ ترین